Thursday, July 25, 2013

ركوع سے اٹھنے كے بعد ہاتھ كہاں ركھے جائيں ؟


ركوع سے اٹھنے كے بعد ہاتھ كہاں ركھے جائيں ؟

ركوع سے اٹھ كر ہاتھ كہاں ركھے جائيں گے ؟ ميں نے بعض لوگوں كو سينہ پر ہاتھ ركھے ہوئے اور بعض كو ہاتھ چھوڑے ہوئے ديكھا ہے.


الحمد للہ:

ركوع سے اٹھ كر ہاتھ ركھنے كى كيفيت ميں صحيح يہ ہے كہ داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھا جائے، اور ہاتھ نہ چھوڑے جائيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ظاہر يہ ہوتا ہے كہ سنت يہ ہے داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھا جائے، كيونكہ سھل بن سعد الثابت رضى اللہ تعالى عنہ كى بخارى شريف ميں عمومى حديث ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ:

" لوگوں كو حكم ديا جاتا تھا كہ وہ نماز ميں اپنا داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھيں "

چنانچہ اگر آپ اس حديث كے عموم كو ديكھيں كہ " نماز ميں " يہاں يہ بيان ہوا ہے نماز ميں اور يہ نہيں كہا گيا كہ " قيام ميں " تو آپ كے ليے يہ واضح ہو گا ركوع كے بعد اٹھ كر بھى ہاتھ باندھنے مشروع ہيں؛ اس ليے كہ نماز ميں ركوع كى حالت ميں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اور سجدہ كى 
                   حالت ميں زمين پر، اور بيٹھنے كى حالت ميں دونوں رانوں پر، اور قيام كى حالت ميں ـ 
يہ ركوع سے قبل اور ركوع كے بعد دونوں كو شامل ہے ـ
انسان اپنا داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھے.

صحيح يہى ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 146 ).

واللہ اعلم .


Tuesday, July 23, 2013

VOTE MY BLOG.
excellent
v.good
good
progressive
You may select multiple answers.
  Show results

Votes so far: 1
Days left to vote: 4

Saturday, July 20, 2013

اہل حدیث کون ہیں ؟


اہل حدیث کون ہیں اوران کے امتیازات وصفات کیا ہیں ؟
اہل حدیث کون ہیں ؟ 




الحمد للہ

اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔

اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :
( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔
بہت سارے آئمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔
اہل حدیث کے اوصاف میں آئمہ کرام نے بہت کچھ بیان کیا ہے جس میں کچھ کا بیان کیا جاتا ہے :
1 - امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئ بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ اہل حدیث ہی ہيں ۔
تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔
2 - خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے انہیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ‏ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئ‏ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔
ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوۓ اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی راۓ ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔
لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔
وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔
اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔
ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔
جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔
3 – شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں ، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں ، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں ، ان کے آئمہ میں فقہاء بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی ، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں ۔
وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ۔
اور جن مسا‏ئل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات ، قدر ، وعید ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں ، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں ، جس کا معنی قران وسنت کےموافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں ، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں ، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔
اورجس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل پیرا ہوتا اورحدیث کوہرقسم کے لوگوں پرمقدم رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم و حافظ اورفقیہ یا عام مسلمان ہی کیوں نہ ہووہ حدیث کومقدم رکھتا ہوتو اسے اہل حدیث کہا جاۓ گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
اوراس مسئلہ میں آئمہ کرام کی بحث و کلام توبہت زيادہ ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے اوپربیان کیے گۓ مراجع سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اوراسی طرح مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی چوتھی جلد بھی فائد مند ہے ،
واللہ اعلم .


الشیخ محمد صالح المنجد

Friday, July 19, 2013

مسنون دعائیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

قرآنی دُعائیں
سَبْحاَنَ اﷲِ وَبِحَمْدِہ عَدَدَ خَلْقِہ وَرِضٰی نَفْسِہ وَ زِنَۃَ عَرْشِہ وَمِدَ ادَ کَلِمَاتِہ
 (صحیح مسلم)
اﷲکی تعریف اس کی مخلوق کی گنتی کے برابر اور اس کی ذات کی خوشنودی کے موافق اور عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر اس کی پاکی بیان کرتا ہوں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ
اے اﷲ! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما۔
 (مسلم)

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ ، وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ
 (طٰہ:٢٥:٢٨)۔
اے میرے رب!میرا سینہ کھول دے،اور میرے لیے میرا کام آسان کردے ،اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا
اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما
 (طٰہٰ : ١١٤)۔

رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا
اے میرے رب! میرے والدین پر رحم فرما ،جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پالا تھا
 (بنی اسرائیل :٢٤)۔

رَبِّ اِنِّی لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر
 (القصص:٢٤)۔ٍ
'پروردگار! جو بھی خیر تو مجھ پر نازل کردے ،میں اس کا محتاج ہوں'

رَبِّ لَا تَذَ رْنِیْ فَرْدًا وّ اَنْتَ خَیْرُ الْوارِثِیْنَ

'اے پروردگار !مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے
(الانبیاء:٨٩)۔
رَبِّ اغْفِرْ وَاْرحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ
اے میرے رب! درگزر فرما،اور رحم کر اور تُو سب رحیموں سے بڑھ کر رحیم ہے
 (المؤمنون : ١١٨)۔

اَعُوْذُ بِاﷲِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ
میں اس (بات ) سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں سی باتیں کرو
 (البقرۃ : ٦٧)۔

رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ وَاجْعَلْ لِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃٍ جَنَّۃٍ النَّعِیْمٍ وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ
اے میرے رب! مجھے حکم عطاکر اور مجھے صالحوں کے ساتھ ملا اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطاکر اور مجھے نعمتوں بھری جنت کے وارثوں میں شامل فرما ،اور مجھے دوبارہ جی اٹھنے کے دن رسوا نہ کرنا
(الشعراء : ٨٣ تا ٨٥،٨٧)۔

رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی القَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ
اے میرے رب!ان مفسدوں کے مقابلے میں میری مدد فرما
 (العنکبوت:٣٠)۔

رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَےْتًا فِی الجَنَّٰۃِ
اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا
 (التحریم)۔

رَبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُبٰرَکًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ المُنْزِلِیْنَ
پروردگار! مجھ کو برکت والی جگہ اتاراور تو بہترین جگہ اتارنے والا ہے۔
 (المؤمنون:٢٩)

لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
نہیں ہے کوئی الٰہ مگر تو پاک ہے تیری ذات ،بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں
 (الانبیاء : ٨٧)

اَنِِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ
(ّاے میرے رب!) مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے (الانبیاء : ٨٣)۔

رَبِّ جَعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ
اے میرے پروردگار!مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔اے ہمارے رب!دعا قبول کر پروردگار!مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کردینا جب حساب قائم ہوگ
ا (ابراھیم : ٤٠ـ٤١)۔

رَبِّ اَوْزِعنِیْ اَنْ اَشْکُرَنِعْمَتِکَ الَّتِی اَنعَمتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صٰلِحًا تَرْضٰہُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادَکَ الصَّلِحِیْنَ
اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر
 (النمل : ١٩)

رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہ عِلْم وَ اِلَّا تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِی اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ
اے میرے رب!میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہوجاؤں گ
ا (ھود:٤٧)۔

رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدقٍ وَّاَخْرَجْنِیْ مُخْرَجَ صِدقٍ وَّاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ سُلْطٰنًا نَصِیْرًا
پروردگار!مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے
 (بنی اسرائیل:٨٠)۔


رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیْطٰنِ ، وَاَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یُحْضَرُوْنِ
پروردگار! میں شیطان کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ،اور اے میرے رب !میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں (المؤمنون : ٩٧ـ٩٨)۔

رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَصْلِحْ لِی فِی ذُرِّیَتِیْ ، اِنِّیْ تُبْتُ اِلیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر اداکروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائیں ،اور ایسا نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہوجائے ،اور میری اولاد کو بھی نیک بناکر مجھے سکھ دے ،میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں تیرے فرماں بردار بندوں میں سے ہوں (الاحقاف:١٥)۔

فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ
اے زمین وآسمان کے بنانے والے !تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے ۔میرا اخاتمہ اسلام پر کر اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا (یوسف:١٠١)۔

رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ
اے ہمارے رب! ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اس حال میں کہ ہم تیرے تابع فرمان ہوں (الاعراف:١٢٦)۔

رَبَّنَا اِنَّنَا اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
اے ہمارے رب!ہم ایمان لائے ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتشِ دوزخ سے بچا لے (اٰل عمران :١٦)۔

رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاْغْفِرلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْء قَدِْر
اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے (التحریم:٨)

رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنَْٰا حَسَنَہً وَّ فی الْاٰخِرۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا (البقرۃ:٢٠١)۔

رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا ، اِنَّھَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا
اے ہمارے رب !ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے ۔اس کا عذاب تو جان کا لاگوہے وہ تو بہت ہی برا جائے قرار اور مقام ہے (الفرقان:٦٥ـ٦٦)۔

رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیٰتِنا قُرَّۃَ اَعیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا للْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
اے ہمارے رب!ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطافرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا (القرقان:٧٤)۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ
اے ہمارے رب!ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اب اگر تونے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائیں گے (الاعراف: ٢٣)۔

رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الکَافِرِیْنَ
اے ہمارے رب!ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمارے قدم جمادے اور کافر قوم پر ہمیں فتح نصیب کر (البقرۃ:٢٥٠)۔

رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً وَّ ھییْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا
اے ہمارے رب !ہمیں اپنی خاص رحمت سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کردے (الکہف:١٠)۔

رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِلْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ وِنَجِّنَا بِرَحْمَتَکَ مِنَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْنَ
اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگو ں کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہمیں کافروں سے نجات دے (یونس:٨٥ـ٨٦)۔

رَبَّنَا عَلَیْکَ تَوَکَّلْنَا وَالِیْکَ اَنَبْنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ
اے ہمارے رب !تیرے ہی اوپر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم نے رجوع کرلیا اور تیرے ہی حضور پلٹنا ہے (الممتحنۃ : ٤)۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ، اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَابُ
پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے رستے پر لگا چکا ہے تو پھر ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کرنا ،اور ہمیں اپنے خزائے فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے (اٰل عمران:٨)۔

رَبَّنَا اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَبَعْنَا الرَّسُولَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشٰھِدِیْنَ
مالک!جو تو نے فرمان نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کی، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ (اٰل عمران : ٥٣)۔

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُ وْف رَّحِیْم
اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی بغض نہ رکھ ۔اے ہمارے رب!تو بڑا مہربان اور رحیم ہے(الحشر:١٠)۔

رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الکَافِرِیْنَ
اے ہمارے رب!ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما۔ ہمارے کام میں تیری حدود سے جو تجاوز ہوگیا ہواُسے معاف فرما اور ہمارے قدم جمادے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما(اٰل عمران :١٤٨)۔

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذُنَآ اِنْ نَسِیْنَآ اَو اَخْطَانَا ' رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ' رَبَّنَا وَلَا تُحَّمِلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَا بِہ ' وَاعْفُ عَنَّاوَاغْفِرلَنَا وَارْحَمْنَا ' اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الکٰافِرِیْنَ
اے ہمارے رب!ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کر اور ہم پر و ہ بوجھ نہ ڈال ،جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پرڈالا تھا پروردگار !جس بار کواٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ ،ہمارے ساتھ نرمی کر ،ہم سے درگزر فرما ،ہم پر رحم کر ،تو ہمارا مولا ہے کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما (البقرۃ:٢٨٦)۔

رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفَّرْ عَنَّا سَیّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِہَامَۃِ' اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ
اے ہمارے رب!ہمارے گناہ معاف فرمادے اور ہم سے ہماری برائیاں دور فرمادے اور ہمیں نیکوکاروں کے ساتھ فوت کرنا، اے ہمارے رب!ہمیں وہ عطا کر جس کا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے وعدہ کیا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا ۔بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا (آل عمران:١٩٣ـ١٩٤)۔

حَسْبِیَ اﷲُ لَآ اِلٰہَ الَّا ھُوَ عَلَیہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ
مجھے اﷲہی کافی ہے ۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اس پر بھروسہ کیا اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے (سورۃ التوبۃ :١٢٩)۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ' اِنَّکَ اَنْتَ السَّمَیْعُ الْعَلِیْمُ ' وَتُبْ عَلَیْنَا ' اِنَّکَ اَنْتَ التََّّواب الرَّحِیْمُ
اے ہمارے رب !ہم سے یہ خدمت قبول کرلے ،تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما ۔تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے

اَللّٰھُمَّ فَقِّھْنِیْ فِی الدِّیْنِ
اے اﷲ! مجھے دین کی سمجھ عطافرما (بخاری)

اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا
اے اﷲ! میرے حساب کو آسان فرمادے(مستدرک حاکم)

یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ عَلٰی دِیْنِکَ
اے دِلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ (ترمذی)

یَامُصرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قَلْبِیْ عَلٰی طَاعَتِکَ
اے دِلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کواپنی اطاعت پر پھیر دے (مسلم)

اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاَعِذُّنِیْ مِنْ شَرٍّ نَفْسِیْ
اے اﷲ! میرے دل میں ہدایت ڈال دے ،اور مجھے میرے نفس کی برائی سے بچا (ترمذی)

اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَکَرَاتِ الْمَوْتِ
اے اﷲ! موت کی سختیوں اور اُس سے طاری ہونے والی بے ہوشیوں میں میری مدد فرما (ترمذی)

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو کَرِْیم تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
اے اﷲ! تومعاف کرنے والا ،کرم کرنے والاہے۔ اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے سو میرے گناہ معاف کردے (ترمذی)

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالعَفَافَ وَالْغِنٰی
اے اﷲ!بے شک میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری ،عفت اور (لوگوں سے )بے پرواہی مانگتا ہوں (مسلم)

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّ رِزْقًا طَیِّبًا وَ عَمَلًا مُتَقَبَّلًا
اے اﷲ!میں تجھ سے نفع دینے والے علم،اور پاکیزہ رزق اور قبول ہونے والے عمل کا سوال کرتاہوں (مشکٰوۃ)

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِبَرٍ سِنِّیْ وَانْقِطَاعِ عُمُرِیْ
اے اﷲ!مجھ پر میرے بڑھاپے اور میری عمر کے ختم ہونے تک اپنا رزق کشادہ رکھنا (الحاکم)

اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغنِنیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ
اے اﷲ!میری کفایت کر اپنے حلال کردہ کے ساتھ ،اپنے حرام کردہ سے (بچاکر)میری کفایت کر اور مجھے اپنے فضل سے اپنے سوا ہر کسی سے بے پرواہ کردے (ترمذی)۔

اَللّٰھُمَّ انْفَعْنِی بِمَا عَلَّمْتَنِیْ وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفُعُنِیْ وَ زِدْنِی عِلْمًا
اے اﷲ!جو تو نے مجھے سکھایاہے اس کے ساتھ مجھے نفع دے اورمجھے سکھا جو مجھے نفع دے اور میرے علم میں اضافہ کر (ابن ماجہ)۔


مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں ۲۰ تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں ، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں ، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں ، پھر بیت اللہ میں کیوں ۲۰ تراویح پڑھائی جاتی ہیں ؟ تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف کیا ہے؟زیر نظر مضمون میں اسی مسئلہ کو زیر بحث بنایا گیا ہے۔ ح م


صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
''ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة''1
''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ''



حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ '' 2
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہ رحمة اللہ علیہ اورابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔



امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ''حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔''3


ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
  • یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
  • پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔

تراویح ہی ماہِ رمضان میں تہجد ہے
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپؐ نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا،یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے، چنانچہ آپؐ نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی، پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں پڑھایا، پھر پچیسویں رات کو آپؐ نے قیام پڑھایا،یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ ؐنے قیام نہیں پڑھایا، پھر ستائیسویں رات کو آپؐ نے اتنا لمبا قیام پڑھایا کہ ہمیں سحری فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔''4


تواس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نمازِ تراویح پر ہی اکتفا کیا اور اس کے بعد نمازِ تہجد نہںپ پڑھی، کیونکہ سحری تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تراویح ہی پڑھاتے رہے، اور اگر اس میں اور نمازِ تہجد میں کوئی فرق ہوتا یا دونوں الگ الگ نمازیں ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کے بعد تہجد پڑھتے۔لہٰذا رمضان میں تراویح ہی نمازِ تہجد ہے،اورعام دنوں میں جسے نمازِ تہجد کہتے ہیں وہی نماز رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حضرت عائشہ ؓ کی (پہلی) حدیث کو کتاب التراویح میں روایت کیا ہے ،اس لئے اس سے نمازِ تہجد مراد لینا ،اور پھر اس میں اورنمازِ تراویح میں فرق کرنا قطعاً درست نہیں ۔


کیا حضرت عمرؓنے بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا؟
ہم نے موطأ اور مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے سائب بن یزید کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓ کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے جہاں یہ اثر روایت کیا ہے، ا س کے فوراً بعد ایک دوسرا اثر بھی لائے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ یزید بن رومان کا کہنا ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات رمضان میں پڑھا کرتے تھے۔ (موطا:۱؍۷۳) لیکن یہ دوسرا اثر منقطع یعنی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے عہد ِعمرؓ کو پایا ہی نہیں ، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی پہلا اثر راجح ہوگا کیونکہ اس میں یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے دو صحابیوں کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے اثر میں یہ ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ توجس کام کا عمرؓنے حکم دیا، وہی راجح ہوگا، کیونکہ وہ سنت کے مطابق ہے۔
نوٹ: حضرت عمرؓ کے متعلق بیس تراویح والے تمام آثار ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح ثابت نہیں ۔(i)



خلاصۂ کلام
گزشتہ مختصر بحث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت گیارہ رکعات ہے، اور حضرت عمرؓ نے بھی اسی سنت کو زندہ کیا اور گیارہ رکعات کا التزام کیا۔ جہاں تک کچھ ائمہ کرام کا یہ موقف ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ سے زیادہ رکعات بھی پڑھی جاسکتی ہے، تو یہ اس بنا پر نہیں کہ زیادہ رکعات سنت ِنبویؐ سے ثابت ہیں ، بلکہ محض اس بنا پر کہ چونکہ یہ نماز نفل ہے، اور نفل میں کمی بیشی ہوسکتی ہے،اس لئے گیارہ سے زیادہ بیس یا اس سے بھی زیادہ رکعات پڑھی جاسکتی ہیں ، اور ہمارا خیال ہے کہ کم از کم اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ سنت اور افضل کیا ہے؟ تو جب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے اور رات کی جو نفل نماز عام دنوں میں آپؐ پڑھا کرتے تھے، وہی نماز رمضان میں تراویح کہلاتی ہے، تو یقینی طور پر نمازِ تراویح کے مسئلے میں سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی ہے، باقی نفل سمجھ کر کوئی شخص اگر گیارہ سے زیادہ پڑھتا ہے تو اس پر کوئی نکیر نہیں ہونی چاہئے،البتہ اسے سنت تصور نہیں کیا جاسکتا،اور اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اور سعودی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔



مسئلہ تراویح اور سعودی علما
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعلہ غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''5
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''



سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنہ ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''6
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''



اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
  1. شیخ عبداللہ بن قعود،
  2. شیخ عبداللہ بن غدیان
  3. شیخ عبدالرزاق عفیفی
  4. شیخ ابن باز


شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معہا، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشـرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلک، وأرجح ھذہ الأقوال أنہا إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضی اﷲ عنہا... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعنی من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضی اﷲ عنہ قال: أمر عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بـإحدی عشرة رکعة''7
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''



سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ
  • یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
  • مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
  • سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔


نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ اعلم!


سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔



  • محدث کے شمارئہ جولائی ۲۰۰۷ء میں بعض اغلاط کی تصحیح
  • صفحہ نمبر۱۹ کی سطر نمبر ۵ کا آخری لفظ رحمہم اﷲ پڑھا جائے۔
  • صفحہ نمبر۴۴ کی سطر نمبر۱۷ میں ولکم التوفیق والسداد پڑھا جائے۔
  • صفحہ نمبر ۳ کے حاشیے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کا نام غلطی سے شائع ہوگیاہے، روزنامہ نوائے وقت کے ایک مضمون سے یہ واقعہ اخذ کیا گیا تھا جو درست نہیں کیونکہ مولانا علی میاں تو۳۱؍دسمبر ۱۹۹۹ء کو وفات پاچکے ہیں ۔
  • صفحہ نمبر ۲۱ پر اشتہار 'ضرورتِ کتب برائے لائبریری' میں رابطہ کے لئے میاں بشیر احمد شاکر موبائل 0300-4461165 کا اضافہ کرلیں۔
محدث کے شمارئہ اگست ۲۰۰۷ء کے صفحہ نمبر ۱۹ پر قابل اصلاح الفاظ
  • مُجْرٰگھَا ایک متواتر قراء ت کے مطابق
  • مُجْرَیْ ھَا دوسری متواتر قراء ت (تقلیل) کے مطابق
  • مُجْرَیْ ھَا تیسری متواتر قراء ت (امالہ) کے مطابق
  • مَجْرَیْ ھَا چوتھی متواتر قراء ت (امالہ، روایت ِحفص) کے مطابق


نماز ِوتر اور دعائے قنوت
نمازِ وتر
نمازِ تراویح (یا نمازِ تہجد) کے بعد سب سے آخری نفل نماز 'وتر' کہلاتی ہے۔ نمازِ وتر کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أوتروا قبل أن تصبحوا8
''صبح (فجر طلوع) ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔''
ایک روایت میں ہے کہ ''وتر (کا وقت) نماز عشاء کے بعد سے طلوعِ فجر تک ہے۔'' 9



نمازِ وتر کی رکعات
نمازِ وتر طاق عدد کی نماز ہے اور یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو تک پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ احادیث میں ایک وتر سے لے کر نو تک کا ثبوت ملتا ہے۔مثلاً
''حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے (ایک مرتبہ وتر کی) نو رکعتیں پڑھیں ۔ ان میں سے صرف آٹھویں رکعت پر تشہد کے لئے بیٹھے ... پھر نویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرا۔'' 10



حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الوتر حق علیٰ کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل)11
''وتر پڑھنا ہرمسلمان پر حق ہے لہٰذا جو پانچ وترپڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھ لے، جو تین پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔''



حضرت اُمّ سلمہؓ سے مروی ہے کہ
''اللہ کے رسولؐ جب پانچ یا سات وتر پڑھتے تو ان کے درمیان سلام یا کلام کے ساتھ فاصلہ نہیں کرتے تھے۔'' 12



حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
''اللہ کے رسولؐ جب پانچ وتر پڑھتے تو ان میں صرف آخری رکعت پربیٹھتے۔''13



وتر کی ادائیگی کا طریقہ
نمازِ وترکی اَدائیگی کے مختلف طریقے احادیث سے ثابت ہیں ۔ ان میں سے دو طریقے زیادہ واضح ہیں :
ایک تو یہ کہ ایک وتر سے لے نو تک جتنے وتر پڑھنے ہوں ، اُنہیں اکٹھا پڑھ لیا جائے اور اس صورت میں تین وتروں کے علاوہ باقی صورتوں میں دو تشہد کئے جائیں ، ایک آخری رکعت پر اور ایک آخری سے پہلی پر۔
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دو دو رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور آخر میں صرف ایک ہی رکعت پڑھ لی جائے۔ اس کے علاوہ بھی نمازِ وتر کی کئی صورتیں احادیث سے ملتی ہیں جن کی تفصیل امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ کی کتاب المُحلّٰی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔(صفحہ نمبرز ؟؟؟؟)



تین وتروں کی ادائیگی کا طریقہ
تین وتروں کی ادائیگی دیگر وتروں کے مقابلہ میں ذرا مختلف ہے اور وہ اس لئے کہ ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (ولا تشبھوا بصلاة المغرب)14
''وتروں کو نماز مغرب کے مشابہ نہ بناؤ۔''



نمازِ مغرب کی مشابہت سے بچنے کے لئے وتروں کی ادائیگی کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ نمازِ وتر کی دوسری رکعت میں تشہد نہ کیا جائے بلکہ تیسری اور آخری رکعت میں ایک ہی تشہد کرکے سلام پھیر دیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھ کر سلام پھیر دیا جائے پھرتیسری رکعت علیحدہ پڑھ لی جائے۔


فقہاے احناف نے اس کی تیسری صورت بھی ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ دوسری اور تیسری رکعت پرتشہد کیاجائے اور یہ نمازِ مغرب کے ساتھ اس لئے مشابہت نہیں کریں گے کہ آخری رکعت میں مغرب کے برخلاف امام اونچی آواز میں تلاوت کرتا ہے۔ واللہ اعلم


وتروں میں قراء ت
وتروں میں کوئی بھی سورت پڑھی جاسکتی ہے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ نمازِ وتر کی پہلی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبح اسم ربک الأعلیٰ اور دوسری میں قل یٰأیھا الکٰفرون اور تیسری میں قل ھو اﷲ أحد پڑھا کرتے تھے۔ 15



وتروں میں قنوت
یہاں قنوت سے مراد وہ دعا ہے جو دورانِ نماز آخری رکعت میں رکوع سے پہلے یا بعد میں کی جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کی دعاے قنوت ثابت ہے۔ ایک تو نمازِ وتر کی آخری رکعت میں اور دوسری فرض نمازوں کی آخری رکعت میں ۔ فرض نمازوں میں کی جانے والی دُعا کو قنوتِ نازلہ کہا جاتاہے اور یہ دُعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی حادثہ، مصیبت یا جہاد کے موقع پر یا مجاہدین کی مدد کے لئے کیا کرتے تھے اور یہ دعا آپؐ سے رکوع کے بعد مروی ہے۔ 16



جبکہ قنوتِ وتر آپ نے بالعموم رکوع سے پہلے ہی کی ہے۔17


فقہاے احناف قنوتِ وتر کے لئے رکوع سے پہلے اور حنابلہ اسے قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد کا تعین کرتے ہیں اور رکوع سے پہلے بھی جائز کہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک قنوتِ وتر رکوع سے پہلے کی جائے یا فرض نمازوں میں ہونے والی قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد کی جائے، دونوں طرح درست ہے اور اس میں بے جا سختی کرنا غیر مناسب ہے، بالخصوص اس لئے بھی کہ خود کئی ایک صحابہؓ سے قنوتِ وتر رکوع کے بعد بھی منقول ہے۔18


قنوتِ وتر کی دعائیں
حضرت حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے مجھے قنوتِ وتر کے لئے یہ کلمات سکھائے تھے :

(اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَإِنَّکَ تَقْضِيْ وَلاَ یُقْضٰی عَلَیْکَ إِنَّہٗ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)19
''اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کی صف میں شامل فرما جنہیں تو نے رُشدو ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے۔ اور جن لوگوں کو تو نے اپنا دوست بنایا ہے، ان میں مجھے بھی شامل کرکے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایاہے، اس میں میرے لئے برکت ڈال اور جس شر اور برائی کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ۔ یقینا تو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تو والی بنا، وہ کبھی ذلیل و خوار اور رسوا نہیں ہوسکتا اور وہ شخص عزت نہیں پاسکتا جسے تو دشمن کہے۔ ہمارے پروردگار آقا! تو (بڑا) ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔''


حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ اپنی نمازِ وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
(اَللّٰھُمَّ إِنِيْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِيْ ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ)20
''یا اللہ! میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اور تیری عافیت کے ساتھ تیری سزا سے پناہ مانگتا ہوں ۔ میں تجھ سے تیری ہی پناہ طلب کرتا ہوں ۔ میں تیری وہ حمدوثنا شمار نہیں کرسکتا جو تو نے خود اپنے لئے کی ہے۔''




وتروں سے سلام کے بعد
حضرت اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ وتروں سے سلام پھیر کر تین بار یہ پڑھتے:

(سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسِ)21
''پاک ہے بادشاہ ، نہایت پاک ہے۔''



حوالہ جات
1. صحیح بخاری: ۲۰۱۳

2. صحیح ابن خزیمہ :۱۰۷۰،ابن حبان۲۴۰۱، ابویعلی ۳؍۳۳۶، صحیح بخاری ۲۰۱۲

3. موطأ: ۱؍۷۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۱

4. سنن ترمذی:۸۰۶حسن صحیح،سنن ابی داود:۱۳۷۵،ابن خزیمہ: ۲۲۰۶

5. فتاوٰی اللجنة الدائمة ۷؍۲۱۲

6. فتاوٰی اللجنة الدائمة : ۷؍۱۹۴

7. مجالس شہر رمضان: ص۱۹

8. صحیح مسلم:۷۵۴

9. صحیح ابن ما جہ:۵۹۸

10. مسلم:۷۴۶

11. صحیح ابوداود للالبانی رحمة اللہ علیہ :۱۲۶۰

12. صحیح ابن ماجہ:۹۸۰

13. صحیح مسلم:۲۳۷

14. دارقطنی:۲؍۲۴، بیہقی :۳؍۳۱، حاکم:۱؍۳۰۴

15. ابن ماجہ:۱۱۷۱، ترمذی

16. بخاری:۱۰۰۲

17. صحیح ابوداود:۱۲۶۶، ابن ما جہ:۱۱۸۲

18. مصنف ابن ابی شیبہ:حوالہ مکمل ؟؟؟

19. ابوداود :۱۴۲۵، ترمذی :۴۶۴، بیہقی:۲؍۲۰۹

20. ابوداود:۱۴۲۷، ترمذی:۳۵۶۶

21. ابوداود: 1430