نام کتاب
نماز نبوی ﷺ بادلائل سنت ِنبوی ﷺ کی روشنی میں
تحقیق وافادات
حافظ زبیر علی زئی
ترتیب وتالیف
کامران طاہر
عرض ناشر
اس کتاب کی تیاری میں زبیر علی زئی صاحب کی تحقیق سے مدد لی گئی اور انہوں نے نظر ثانی کی۔
اسی اسلوب کوسامنے رکھتے ہوئے نماز کے دیگر موضوعات پر بھی ایسا ہی کام کامران صاحب نے کیا۔ ہر نکتہ کی دلیل بیان کی جائے گی ، اس کا مستند حوالہ پیش کیا جائے گا، عوام الناس کے مطالعے کے لئے اعراب بھی لگائے جارہے ہیں۔
اس موضوع پر ماضی وحال میں لکھی جانے والی کتب کے نکات کا بھی خلاصہ پیش کردیا گیا ہے۔
جہاں کوئی ضروری نکتہ یا یادداشت ملحوظ رکہنا ہو وہاں ï کی علامت سے واضح کیا گیا ہے۔
اسی اسلوب کوسامنے رکھتے ہوئے نماز کے دیگر موضوعات پر بھی ایسا ہی کام کامران صاحب نے کیا۔ ہر نکتہ کی دلیل بیان کی جائے گی ، اس کا مستند حوالہ پیش کیا جائے گا، عوام الناس کے مطالعے کے لئے اعراب بھی لگائے جارہے ہیں۔
اس موضوع پر ماضی وحال میں لکھی جانے والی کتب کے نکات کا بھی خلاصہ پیش کردیا گیا ہے۔
جہاں کوئی ضروری نکتہ یا یادداشت ملحوظ رکہنا ہو وہاں ï کی علامت سے واضح کیا گیا ہے۔
حافظ حسن مدنی
مدیر مجلس
مدیر مجلس
1. باب اوّل
احکامِ وضو وتیمم
وضو کا مختصر طریقہ
وضو کا مفصل طریقہ
موزوں اور جرابوں پر مسح
تیمم
وضو کے چند دیگر مسائل
1. مختصر طریقہ وضو
o وضو کی ا بتدا بسم اللہ سے کریں۔
o دونوںہاتھوں کو دھوئیں۔
o ہاتھوں کی انگلیوں میں خلال کریں۔
o دائیں ہاتھ سے ایک چلو پانی لے کر کلی کریں اور ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑیں، ناک کو بائیں ہاتھ سے جھاڑا جائے۔
o اُوک بھر پانی لے کر منہ دھوئیں۔
o ٹھوڑی کے نیچے سے پانی داخل کر کے داڑھی میں خلال کریں۔
o دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئیں۔
o دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کا مسح کریں اگر پگڑی سر پر ہے تو پگڑی کے اوپر سے مسح کیا جا سکتا ہے۔
o دونوں پاؤں دھوئیں دائیں پاؤں سے ابتدا کریں اور پاؤں کی انگلیوں کا چھنگلی کے ساتھ خلال کریں۔
o اگر پاؤں پر جراب یا موزہ ہو تو اس پر مسح کیا جا سکتا ہے۔
o مسح سر کے سوا اعضا کو زیادہ سے زیادہ تین اور کم از کم ایک مرتبہ دھونا سنت ہے۔
o آخر میں سامنے سے کپڑا اٹھا کر شرمگاہ پر چھینٹے ماریں اور مسنون دعا پڑھیں۔
2. مفصل طریقہ وضو
نیند سے بیداری پر
نیند سے بیداری پر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھو لیں۔ آپ نے اس کا حکم دیا ہے۔
دلیل: ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((إذا استیقظ أحدکم من نومہ فلیغسل یدہ قبل أن یدخلہا فی وضوئہ فإن أحدکم لا یدری أین باتت یدہ)) (صحیح بخاری:۱۶۲)
’’جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو پانی کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے دھولے، کیونکہ اسے علم نہیں کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں بسر کی۔‘‘
انہی سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا:إذا استیقظ أحدکم من منامہ فلیستنثر ثلاث مرات فإن الشیطان یبیت علی خیاشیمہ (صحیح مسلم:۵۶۴)
’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو تین دفعہ ناک میں پانی چڑھا کر جھاڑ لے بے شک شیطان ناک کی جڑوں میں رات گزارتا ہے۔‘‘
1. ترتیب ِوضو
وضو کے شروع میں بسم اﷲ کہنا ضروری ہے ،کیونکہ نبی نے اس کا حکم دیا ہے ۔
دلیل: آپ نے فرمایا: (( توضؤوا باسم اﷲ)) (صحیح نسائی:۷۶)
’’وضو (کی ابتدا) بسم اللہ کے ساتھ کرو۔ ‘‘
اور آپ (ﷺ) نے فرمایا: لاصلوٰۃ لمن لا وضوء لہ ولا وضوء لمن لم یذکر اسم اﷲ تعالیٰ علیہ (صحیح ابوداود:۹)
’’جس کا وضو نہیں اس کی نما زنہیں اور جس نے اللہ کا نام نہ لیا، اس کا وضو نہیں۔‘‘
1. دونوں ہاتھوں کا دھونا
دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین دفعہ دھوئیں۔
دلیل: مولی عثمان، عثمان کے مسنون وضو کا طریقہ یوں بیان کرتے ہیں :
’’فأ فرغ علی کفیہ ثلاث مرار فغسلہما‘‘ (صحیح بخاری:۱۵۹)
’’اُنہوں نے تین دفعہ اپنے ہاتھوں پرپانی ڈالا اور ان کو دھویا۔‘‘
1. انگلیوں میں خلال
ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کا خلال کرنا چاہئے۔
دلیل: نبی کریم ﷺنے فرمایا:أسبغ الوضوء وخلل بین الأصابع (صحیح ابوداود:۱۲۹)
’’وضو پورا کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کیا کرو۔‘‘
1. کلی کرنا اور ناک جھاڑنا
(دائیں ہاتھ کے) ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی چڑھائیں(جھاڑیں) اور یہ عمل تین مرتبہ کریں۔
دلیل: عبداللہ بن زید نے رسول اللہﷺ کے وضو کا طریقہ بتلانے کے لئے پانی منگوایا تین مرتبہ اپنے ہاتھ دھوئے پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا’’فمضمض واستنثر ثلاث مرات من غرفۃ واحدۃ‘‘(صحیح بخاری:۱۹۹)
’’پھر تین مرتبہ ایک ہی چلو سے کلُی اور ناک (میں پانی چڑھاکر) جھاڑا۔‘‘
ناک کس ہاتھ سے جھاڑا جائے
ناک بائیں ہاتھ سے جھاڑا جائے جیسا کہ علی نے نبی کے وضو کا طریقہ بتلانے کے لئے پانی منگوایا ’’فتمضمض واستنشق ونثر بیدہ الیسریٰ،ففعل ھذا ثلاثا ثم قال: ھذا طھور نبي اﷲﷺ‘‘ (صحیح نسائی:۸۹)
’’پھرکلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا اور بائیں ہاتھ سے ناک کو جھاڑا یہ عمل تین مرتبہ کیا
منہ کا دھونا
اس کے بعد تین مرتبہ اُوک بھر پانی لے کر اپنے منہ کو دھویا جائے۔
دلیل: عبداللہ بن زید نے نبی کے وضو کا طریقہ بتلاتے ہوئے یہ عمل بھی کیا کہ’’غسل وجھہ ثلاثا‘‘ (صحیح بخاری:۱۸۵) ’’تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔‘‘
چہرہ میں کان شامل نہیں، کیونکہ اس کے لئے مسح کا الگ عمل موجود ہے جو آگے ذکر کیا جائے گا۔
داڑھی کا خلال
منہ دھونے کے بعد چلو میں پانی لے کر اسے ٹھوڑی کے نیچے سے داڑھی میں داخل کریں اور داڑھی کا اپنی انگلیوں سے خلال کریں۔
دلیل: انس بن مالک سے روایت ہے کہ أن رسول اﷲ کان إذا توضأ أخذ کفا من مائٍ فأدخلہ تحت حنکہ فخلل بہ لحیتہ وقال: ((ھکذا أمرنی ربی عزوجل)) (صحیح ابوداود:۱۳۲)
’’اللہ کے رسول جب چہرہ دھو لیتے تو چلو میں پانی لیتے اور ٹھوڑی کے نیچے سے پانی کو داخل کرتے داڑھی کا خلال کرتے اور آپ نے فرمایا: میرے رب عزوجل نے مجھے اس امر کا حکم دیا ہے۔
1. کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کا دھونا
داڑھی کے خلال کے بعد کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کو دھوئیں پہلے دایاں ہاتھ تین مرتبہ دھوئیں پھر بایاں ہاتھ تین مرتبہ دھوئیں۔
دلیل: عثمان کا مسنون وضو کرکے دکھانا جس میں یہ عمل بھی ہے کہ’’ثم غسل یدہ الیمنی إلی المرفق ثلاثا،ثم غسل یدہ الیسری إلی المرفق ثلاثا‘‘ (صحیح بخاری:۱۹۳۴)
’’پھر انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا، پھر بایاں ہاتھ کہنی تک تین مرتبہ دھویا۔‘‘
1. سر کا مسح
دونوں بازو دھونے کے بعد دونوں ہاتھوں کو تر کرکے سرکا مسح کریں اور سر کا مسح دو حالتوں میں ہوتا ہے:
1. ننگے سر پر
2. ڈھانپے ہوئے سر پر
2. ننگے سر پر
اگر سر ننگا ہو تو دونوں ہاتھوں کو سر کی پیشانی کے بالوں سے شروع کرکے مسح کرتے ہوئے گدی تک لے جائیں پھر اسی طرح ہاتھوں کو واپس جہاں سے شروع کیا تھا وہیں لے آئیں۔
دلیل: عبداللہ بن زید نے نبی کے وضو کا طریقہ سکھلاتے ہوئے مسح کا طریقہ عملی طور پر یوں بیان کیا:’’ثم مسح راسہ بیدیہ فأقبل بھما وأدبر،بدأ بمقدم راسہ حتی ذھب بھما إلی قفاہ، ثم ردھما إلی المکان الذی بدأ منہ‘‘
’’پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر کا مسح کیا پس ان دونوں ہاتھوں کوآگے سے پیچھے اور پیچھے سے آگے لے کر گئے سر کے آگے سے شروع کیا یہاںتک کہ ہاتھوں کو گدی تک لے گئے پھر ان دونوں ہاتھوں کو جہاں سے شروع کیا تھا اسی جگہ واپس لے آئے۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۸۵)
1. ڈھانپے ہوئے سر پر
اگر سر پر پگڑی وغیرہ ہو تو اس کے مسح کی دو صورتیں ہیں :
پگڑی کے اوپر سے اس طرح مسح کرلیا جائے جس طرح ننگے سرپرکیا جاتا ہے۔
دلیل: عمرو بن امیہ فرماتے ہیں:’’رأیت النبي یمسح علی عمامتہ وخفیہ‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۵)
’’میں نے نبی کو اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔‘‘
پگڑی پرمسح اس طرح بھی سنت ہے کہ پیشانی کے بالوں پرمسح کرتے ہوئے باقی مسح پگڑی کے اوپر سے کرلیا جائے۔
دلیل: مغیرہ بن شعبہ نبی کا عمل بیان کرتے ہیں کہ’’أن نبی اﷲ مسح علی الخفین ومقدم راسہ وعلی عمامتہ‘‘ (صحیح مسلم:۲۷۴)
’’بے شک نبی نے دونوں موزوں پر مسح کیا اور اپنے سر کے اگلے حصے (پیشانی کے بالوں) پر اور اپنی پگڑی پر مسح کیا۔‘‘
اسی طرح اگر زخم وغیرہ پر پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس پر مسح کیاجاسکتا ہے۔ صحابہ کرام کا اس پر عمل تھا۔
دلیل: عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں:’’من کان لہ جرح معصوب علیہ توضأ ومسح علی العصائب ویغسل ماحول العصائب‘‘ (بیہقی:۱؍۲۲۸)
’’اگر زخم پر پٹی بندی ہوئی ہو تو وضو کرتے وقت پٹی پر مسح کرکے ارد گرد کو دھولے۔‘‘
دلیل: مغیرہ بن شعبہ نبی کا عمل بیان کرتے ہیں کہ’’أن نبی اﷲ مسح علی الخفین ومقدم راسہ وعلی عمامتہ‘‘ (صحیح مسلم:۲۷۴)
’’بے شک نبی نے دونوں موزوں پر مسح کیا اور اپنے سر کے اگلے حصے (پیشانی کے بالوں) پر اور اپنی پگڑی پر مسح کیا۔‘‘
اسی طرح اگر زخم وغیرہ پر پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس پر مسح کیاجاسکتا ہے۔ صحابہ کرام کا اس پر عمل تھا۔
دلیل: عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں:’’من کان لہ جرح معصوب علیہ توضأ ومسح علی العصائب ویغسل ماحول العصائب‘‘ (بیہقی:۱؍۲۲۸)
’’اگر زخم پر پٹی بندی ہوئی ہو تو وضو کرتے وقت پٹی پر مسح کرکے ارد گرد کو دھولے۔‘‘
1. کانوں کا مسح
سر کے مسح کے بعد کانوں کے مسح کے لیے شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں پھیر کر کانوں کی پشت پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کریں۔
دلیل: ابن عباس فرماتے ہیں کہ أن رسول اﷲ مسح أذنیہ داخلھما بالسبابتین وخالف إبھامیہ إلی ظاھر أذنیہ فمسح ظاھرھما وباطنھما (صحیح ابن ما جہ:۳۵۳)
’’بے شک رسول اللہ(ﷺ) نے شہادت کی دونوں انگلیوں کو کانوں میں داخل کرکے انگوٹھوں کو کانوں کی پشت پر رکھتے ہوئے کانوں کے اندر اور باہر (انگلیوں اور انگوٹھوں کی ایسی حالت) سے مسح کیا۔‘‘
کانوں کے مسح کے لئے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں۔
1. دونوں پاؤں کو دھونا
مذکورہ بالا اعمال کے بعد تین تین دفعہ بالترتیب دائیں اور بائیں پاؤں کو ٹخنوں تک دھوئیں۔
دلیل: عثمان سے مسنون عمل یوں مذکور ہے:ثم غسل رجلہ الیمنی ثلاثا، ثم الیسری ثلاثا (صحیح بخاری: ۱۹۳۴)
’’پھر آپ نے اپنا دایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا اور اس کے بعد بایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا۔‘‘
1. پاؤں کی انگلیوں کاخلال
پاؤں کو دھوتے ہوئے چھنگلی سے انگلیوں کا خلال کیا جائے۔
دلیل: مستورد بن شداد فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺکو دیکھا کہ’’إذا توضأ یدلک أصابع رجلیہ بخنصرہ‘‘ (صحیح ابوداود:۱۳۴)
’’جب آپ وضو کرتے تو اپنے(دائیں) ہاتھ کی چھنگلی سے اپنے پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرتے۔‘‘
1. موزوں اور جرابوں پر مسح
اگر پاؤں پر موزے یاجرابیں پہنی ہوں تو ان پر مسح کرنا کافی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ موزے وغیرہ وضو کرکے پہنے گئے ہوں۔ (صحیح بخاری ۲۰۶) یعنی ایک دفعہ وضو کرکے موزے پہننے سے باربار مسح کیا جاسکتا ہے جب تک کوئی ایسا امر واقع نہ ہو جس سے غسل واجب ہو مثلا ً مباشرت ، احتلام، حیض اور نفاس کی حالت۔
مسح کی مدت
موزوں اور جرابوں پر مسح کی مدت مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات اور مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں ہے۔
دلیل: شریح بن ہانی نے عائشہ کی ترغیب پر علی سے موزوں پر مسح کرنے کی مدت کے متعلق پوچھا تو علی نے فرمایا: جعل رسول اﷲ ثلاثۃ أیام ولیالیھن للمسافر ویوما ولیلۃ للمقیم (صحیح مسلم:۲۷۶)
’’نبی نے تین دن اور تین راتیں مسافر کے لئے، ایک دن اور ایک رات مقیم کے لئے (مسح کی مدت مقرر کی)
مسح کی مدت مسح کرنے سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یعنی اگر ظہر کی نماز کے وقت آپ نے مسح کیا تو دوسرے دن ظہر کی نماز تک یہ مسح برقرار رہا اب ظہر کی نماز موزے اتار کر وضو کرکے پڑھی جائے گی اسی پر تین دن اور تین راتوں کو قیاس کریں۔
موزے اور جراب میں فرق
موزہ نرم چمڑے کی اس تھیلی کو کہتے ہیں جو سردی سے بچنے کے لئے پاؤں پر چڑھائی جاتی ہے۔ عربی میں اسے خف کہتے ہیں جس طرح عمرو سے روایت ہے کہ ’’رأیت النبی یمسح علی عمامتہ وخفیہ‘‘ (صحیح بخاری:۲۰۵)
’’میں نے نبی کو دیکھا کہ آپ نے (وضو میں) اپنی پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔‘‘
اس طرح جراب عربی لغت میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو پاؤں میں پہنی جائے چمڑے سے بنی ہو تو موزا اور اگر سوت وغیرہ سے بنی ہو تو اردو میں جراب کہہ دیتے ہیں۔ جراب پر مسح کے متعلق مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ’’أن رسول اﷲ توضأ ومسح علی الجوربین والنعلین‘‘ (صحیح ابوداود:۱۴۳)
’’رسول اللہﷺ نے وضو فرمایااور اپنے دونوں جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جوتوں پر بھی مسح ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لئے بھی شرط ہے کہ پہلے وضو کرکے پہنے ہوں۔
1. اعضا کو کتنی مرتبہ دھویاجائے
وضو کرتے ہوئے اعضا کو ایک ایک، دو دو اور تین تین مرتبہ دھونا سنت سے ثابت ہے لہٰذا مذکورہ تعداد میں سے کوئی بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔
ایک، ایک مرتبہ کے لئے
دلیل: عن ابن عباس قال: ’’توضأ النبي مرۃ مرۃ‘‘ (صحیح بخاری:۱۵۷)
’’ عباس فرماتے ہیں کہ نبی نے وضو میں ایک ایک بار اعضا دھوئے۔‘‘
دو دو مرتبہ
دلیل: عن عبد اﷲ بن زید أن النبيﷺ توضأ مرتین مرتین
’’عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ نبی نے وضو میں دو دو مرتبہ اپنے اعضا دھوئے۔‘‘(صحیح بخاری:۱۵۸)
تین تین مرتبہ
دلیل: حمران نے عثمان کا مسنون وضو یوں بیان کیا ہے کہ آپ نے وضو کے لئے پانی منگوایا ’’فأفرغ علی کفیہ ثلاث مرار فغسلھما، ثم أدخل یمینہ فی الإناء فمضمض واستنثر ثم غسل وجھہ ثلاثا ویدیہ إلی المرفقین ثلاث مرار،ثم مسح براسہ ثم غسل رجلیہ ثلاث مرار إلی الکعبین‘‘ (صحیح بخاری:۱۵۹)
’’پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ برتن میں ڈالا اور کلُی کی اور ناک میں پانی ڈالا اس طرح منہ کو تین مرتبہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا اور پھر اپنے دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک تین مرتبہ دھویا۔‘‘
1. شرمگاہ پر چھینٹے مارنا
وضو تو مکمل ہوچکا ۔اب مذکورہ بالا اعمال کے بعد شرم گاہ پر پانی کے چھینٹے مارنا سنت ہے۔
دلیل: حکم فرماتے ہیں کہ’’أنہ رأی رسول اﷲ !توضأ ثم أخذ کفا من مائٍ فنضح بہ فرجہ‘‘ (صحیح ابن ماجہ:۳۷۴)
’’انہوں نے رسول اللہﷺ کودیکھا کہ آپ نے وضو کیا پھر چلو میں پانی لیا اور اپنی شرمگاہ پر چھینٹ دیا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:((علمني جبرائیل الوضوئ،وأمرنی أن أنضح تحت ثوبي))(ایضاً:۳۷۵)
’’جبرائیل نے مجھے وضو کا طریقہ سکھلایا اور مجھے حکم کیا کہ میں اپنے کپڑے کے نیچے چھینٹے ماروں۔‘‘
وضو کی تکمیل پر دعا
آپ نے فرمایا:جوشخص وضو کرنے کے بعد یہ دعا: (( أَشْہَدُ أنْ لَّا إلہ إلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ،[اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ])) (صحیح مسلم:۲۳۴،صحیح ترمذی:۴۸)
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ا ور بے شک محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل کر جو توبہ کرتے رہتے ہیں اور جو ہر وقت پاک صاف رہتے ہیں۔‘‘
پڑھ لیتا ہے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جس میں سے چاہے وہ داخل ہو۔
وضو کے بعدمذکورہ دعا انگشت ِشہادت بلند کرکے آسمان کی طرف دیکھ کرپڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
وضو کے بعدمذکورہ دعا انگشت ِشہادت بلند کرکے آسمان کی طرف دیکھ کرپڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
نواقض وضو
چند ایسے اعمال ہیں جن کے صدور سے وضو ٹوٹ جاتاہے:
پیشاب و پاخانہ کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (المائدۃ:۶)
ریح وغیرہ کے خارج ہونے سے۔ (صحیح بخاری:۱۳۷)
(چت لیٹ کر) سونے سے۔ (صحیح ابوداود:۱۸۸)
شرم گاہ کو چھونے سے ۔ (صحیح ابوداود:۱۶۶)
اونٹ کا گوشت کھانے سے۔ (مسلم:۳۶۰)
اور مندرجہ ذیل اُمور جن سے وضو نہیں ٹوٹتا :
جسم سے خون نکلنے سے۔
نکسیر و قے آجانے سے۔
بغیر ٹیک لگائے سونے سے۔
تیمم
تیمم غسل جنابت یا وضو کا قائم مقام ہے اور یہ پانی نہ ملنے کی صورت میں طہارت حاصل کرنے کے لئے پاک مٹی سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تیمم شدید عذر اور ایسی بیماری کی حالت میں بھی کیا جاسکتا ہے کہ جس میں جان جانے کا خطرہ ہو۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:}وَإنْ کُنْتُمْ مَرْضٰی أوْ عَلیٰ سَفَرٍ أوْ جَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْ لـمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ {
’’اگر تم مریض یاسفر پر ہو یاتم قضائے حاجت سے فارغ ہوئے ہو یا تم عورتوں سے مل چکے ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو، پس اپنے چہروں اور ہاتھوں کامسح کرو۔‘‘ (النساء:۴۳، المائدۃ:۶(
قرآن کی مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں درج شدہ عوارض یا ان جیسے معاملات میں تیمم کیا جاسکتا ہے۔
طریقہ تیمم
اس کے دو طریقے نبی ﷺسے منقول ہیں:
روایت ہے کہ’’وضرب النبي! بکفیہ الأرض ونفخ فیھما،ثم مسح بھما وجھہ وکفیہ‘‘ (صحیح بخاری :۳۳۸)
’’اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان دونوں پر پھونکا پھر اپنے چہرے اور اپنے دونوں ہاتھوں (کی پشت) پرپھیرے۔ ‘‘
دوسراطریقہ آپ سے یوں منقول ہے کہ’’فضرب بکفہ ضربۃ علی الارض ثم نفضھا ثم مسح بھا ظھر کفہ بشمالہ، أو ظھر شمالہ بکفہ، ثم مسح بھا وجھہ‘‘ (صحیح بخاری:۳۴۷)
’’آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا پھر اس کو جھاڑ دیا پھر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کی پشت پر پھیرا اور دائیں کو بائیں ہاتھ پر پھیرا پھر ان سے اپنے چہرے پر مسح کیا۔‘‘
تیمم کن چیزوں اور کتنی مدت تک ہوتا ہے؟
تیمم کے لئے پاک مٹی کا ہونا ضروری ہے۔آپ(ﷺ) نے فرمایا: الصعید الطیب وضوء المسلم ولو إلی عشر سنین
’’پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے اگرچہ دس برس پانی نہ پائے۔‘‘(صحیح ابو داود:۳۲۱)
اس کے علاوہ مٹی کے نہ ہونے کی صورت میں اس کی مختلف اقسام مثلاً کلرشدہ مٹی، پتھراور ریت وغیرہ سے بھی تیمم کیا جاسکتا ہے۔
تیمم چونکہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر کسی انتہائی عذر کی وجہ سے کیا جاتا ہے لہٰذا پانی وغیرہ کی موجودگی یا عذر دو رہوجانے کی وجہ سے تیمم ختم ہوجاتا ہے وگرنہ ایسا کوئی عارضہ لاحق نہ ہونے کی وجہ سے کہ جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہو تیمم کی مدت وضو کی طرح ہی ہے۔
تیمم چونکہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر کسی انتہائی عذر کی وجہ سے کیا جاتا ہے لہٰذا پانی وغیرہ کی موجودگی یا عذر دو رہوجانے کی وجہ سے تیمم ختم ہوجاتا ہے وگرنہ ایسا کوئی عارضہ لاحق نہ ہونے کی وجہ سے کہ جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہو تیمم کی مدت وضو کی طرح ہی ہے۔
1. وضو کے چند دیگر مسائل
شک کا وضو
صرف شک کی بنا پر دوبارہ وضو ضروری نہیں ہے۔
ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ )سے روایت ہے کہ آپ (ﷺ)نے فرمایا: إذا وجد أحدکم فی بطنہ شیئا فأشکل علیہ أخرج منہ شئ أم لا فلا یخرجن من المسجد حتی یسمع صوتا أویجد ریحا
’’جب تم میں سے کوئی اپنے پیٹ میں گڑبڑ محسوس کرے اور فیصلہ نہ کرپارہا ہو کہ ریح خارج ہوئی ہے یا نہیں تو وہ تب تک مسجد سے نہ نکلے جب تک اس کی آواز نہ سن لے یا بومحسوس نہ کرلے۔‘‘ (صحیح مسلم:۳۶۲)
عورت کے ساتھ بوس وکنار سے وضو
عورت کا مجردبوسہ وغیرہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک مذی کا اخراج نہ ہو۔
عائشہ فرماتی ہیں:أن النبی! قبّل بعض نسائہ ثم خرج إلی الصلاۃ ولم یتوضأ (صحیح ترمذی:۷۵)
عورت کا مجردبوسہ وغیرہ لینے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک مذی کا اخراج نہ ہو۔
عائشہ فرماتی ہیں:أن النبی! قبّل بعض نسائہ ثم خرج إلی الصلاۃ ولم یتوضأ (صحیح ترمذی:۷۵)
’’نبی نے اپنی بیویوں میں سے کسی کا بوسہ لیا پھرنماز کے لئے چلے گئے اور وضو نہیں کیا۔‘‘
ناخن پالش اور وضو
ناخن پالش اگر لگی ہوئی ہو تو وضو نہیں ہوتا،کیونکہ وضو کے پانی کا وضو کے اعضا تک پہنچنا ضروری ہے جبکہ نیل پالش کی تہ موٹی اور واٹر پروف ہوتی ہے اس لئے نہ تو پانی کا اندر جانے کا امکان ہوتا ہے اور نہ ہی جذب ہونے کا، لہٰذا عضو کے اس حصہ کے خشک رہ جانے سے وضو نہیں ہوتا۔ ابوہریرہ سے روایت ہے:أن النبي ﷺ رأی رجلا لم یغسل عقبہ فقال: ویل للأعقاب من النار (صحیح مسلم:۲۴۲)
ناخن پالش اگر لگی ہوئی ہو تو وضو نہیں ہوتا،کیونکہ وضو کے پانی کا وضو کے اعضا تک پہنچنا ضروری ہے جبکہ نیل پالش کی تہ موٹی اور واٹر پروف ہوتی ہے اس لئے نہ تو پانی کا اندر جانے کا امکان ہوتا ہے اور نہ ہی جذب ہونے کا، لہٰذا عضو کے اس حصہ کے خشک رہ جانے سے وضو نہیں ہوتا۔ ابوہریرہ سے روایت ہے:أن النبي ﷺ رأی رجلا لم یغسل عقبہ فقال: ویل للأعقاب من النار (صحیح مسلم:۲۴۲)
’’نبی نے ایک آدمی کو دیکھاکہ اس نے (وضو کرتے ہوئے)ایڑی نہ دھوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ایڑیوں کی آگ سے ہلاکت ہے۔‘‘
اسی طرح مہندی اور اس طرح کی کوئی بھی چیز جس میں سے پانی جذب ہوجائے استعمال کی جاسکتی ہے اور اس طرح ناخن پالش جیسی تمام چیزیں جو جلد تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہوتی ہیں وضو کے ا عضا پر لگانے سے وضو نہیں ہوتا۔
1. باب دوم
نماز اور اس کے احکام
اوقاتِ نماز
پانچ نمازوں کی تعدادِ رکعات
نماز کے چند ضروری مسائل
نماز کا مختصرطریقہ
نماز کا مفصل طریقہ
1. اَوقاتِ نماز
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دن رات میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے اور اسی طرح ہر نماز کو بھی اس کے وقت پر پڑھنے کا حکم فرمایا جیساکہ اس کا ارشاد ہے:إنَّ الصَّلـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء:۱۰۳)
’’بے شک مومنوں پر نماز مقرر ہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘
1. پانچوں نمازوں کا ابتدائی وقت
جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں: فصلی الظہر حین زالت الشمس وکان الفئ قدر الشراک ثم صلی العصر حین کان الفئ قدر الشراک وظل الرجل ثم صلی المغرب حین غابت الشمس ثم صلی العشاء حین غاب الشفق ثم صلی الفجر حین طلع الفجر (صحیح نسائی:۵۱۰)
’’آپ نے ظہر کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد جبکہ زوال فئ کا سایہ جو تے کے تسمے کے برابر تھا اس وقت پڑھائی پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب زوال فئ کا سایہ تسمے اور آدمی کے برابر ہوگیا پھر مغرب کی نماز پڑھائی جس وقت سورج غروب ہوگیا پھر عشاء کی نماز سرخی غائب ہوجانے پر پڑھائی پھر جب فجر طلو ع ہوئی تو فجر کی نماز پڑھائی۔‘‘
مندرجہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہظہر
جب جوتے کے تسمہ کے برابر زوال کا سایہ پہنچ جائےعصر
جب آدمی کے برابر سایہ پہنچ جائےمغرب
سورج غروب ہونے پرعشا
سرخی غائب ہونے پرفجر
طلوعِ فجر سے
جب جوتے کے تسمہ کے برابر زوال کا سایہ پہنچ جائےعصر
جب آدمی کے برابر سایہ پہنچ جائےمغرب
سورج غروب ہونے پرعشا
سرخی غائب ہونے پرفجر
طلوعِ فجر سے
1. پانچوں نمازوں کا اوّل و آخر وقت
ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ نبی(ﷺ) نے فرمایا: للصلاۃ أولاً وآخراً وإن أول وقت صلاۃ الظہر حین تزول الشمس وآخر وقت حین یدخل وقت العصر وإن أول وقت صلاۃ العصر حین یدخل وقتھا وإن آخر وقتھا حین تصفر الشمس وإن أول وقت المغرب حین تغرب الشمس وإن آخر وقتھا حین یغیب الافق وإن أول وقت العشاء الآخرۃ حین یغیب الافق وإن آخر وقتھا حین ینتصف اللیل وإن أول وقت الفجر حین یطلع الفجر وإن آخر وقتھا حین تطلع الشمس(صحیح ترمذی:۱۲۹)
’’بے شک ہر نماز کے لئے اول اور آخری وقت ہے ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت جب سورج ڈھل جائے اور آخری وقت جب نماز عصر کا وقت شروع ہو عصر کی نماز کا اول وقت وہی ہے جب یہ اپنے وقت میں داخل ہوجائے اور آخری وقت جب سورج زرد ہوجائے مغرب کی نماز کا اول وقت جب سورج غروب ہوجائے اور آخری جب سرخی غائب ہوجائے عشاء کا اول وقت جب سرخی غائب ہوجائے اور آخری وقت جب آدھی رات گزر جائے۔‘‘
ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی(ﷺ) نے فرمایا کہ جبرائیل ؑ نے کعبہ کے پاس دو مرتبہ نماز میں میری امامت کی:فصلی الظہر فی الاولی منھما حین کان الفئ مثل الشراک،ثم صلی العصر حین کان کل شئ مثل ظلہ،ثم صلی المغرب حین وجبت الشمس وأفطر الصائم،ثم صلی العشاء حین غاب الشفق ثم صلی الفجر حین برق الفجر وحرم الطعام علی الصائم وصلی المرۃ الثانیۃ الظہر حین کان ظل کل شئ مثلہ لوقت العصر بالامس ثم صلی العصر حین کان ظل کل شئ مثلیہ،ثم صلی المغرب لوقتہ الاول ثم صلی العشاء الآخرۃ حین ذہب ثلث اللیل ثم صلی الصبح حین اسفرت الأرض ثم التفت إلیّ جبریل فقال یا محمد! ھذا وقت الانبیاء من قبلک والوقت فیما بین ھذین الوقتین (صحیح ترمذی:۱۲۷)
’’پس اُنہوں نے ظہر کی نماز پہلی مرتبہ جب زوال فئ کا سایہ جوتے کے تسمے کے برابر ہو تب پڑھائی ، پھر عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے مساوی ہوگیا پھر مغرب کی اس وقت کہ جب سورج غروب ہوگیا اور روزہ دار نے روزہ کھول لیا پھر شفق (سرخی) ختم ہونے پر عشاء کی نماز پڑھائی، پھر عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب پوہ پھوٹ پڑی اور صائم پر کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے۔اور دوسری مرتبہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا پھر عصر کی نماز جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوا پڑھائی، پھر مغرب کی نماز اس کے اول وقت میں پڑھائی، پھر عشاء کی نماز ثلث لیل کو پڑھی، پھر فجر کی نماز جب زمین روشن ہوگئی اس وقت پڑھی،پھر جبریل ؑ نے میری طرف توجہ کی اور بولے اے محمد! یہ اوقات تجھ سے پہلے انبیاء میں تھے اور (نماز) کا وقت ان دو اوقات کے درمیان میں ہے۔‘‘
1. حاصل نکات
نماز
|
اول وقت
|
آخر وقت
|
ظہر
|
زوال کے فورا بعد یا سایہ تسمہ کے برابر ہو
|
ہرچیز کا سایہ ایک مثل ہو
|
عصر
|
ایک مثل سایہ ہودو مثل سایہ ہو
|
سورج زرد ہونے تک
|
مغرب
|
سورج غروب
|
سرخی غائب ہونے تک
|
عشاء
|
سرخی غائب ہونے سے
|
نصف یا ثلث لیل تک
|
فجر
|
طلوع فجر
|
سورج طلوع تک
|
جمعہ
|
ظہر کا وقت ہی ہے
1. سفر میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کرکے پڑھنا
ابوذرغفاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبی کے ساتھ سفر پر تھے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی:فقال النبي! (أبرد)ثم أراد أن یوذن فقال لہ (أبرد) حتی رأینا فئ التلول فقال النبی! (إن شدۃ الحر من فیح جھنم فإذا اشتد الحرفأبردوا بالصلاۃ) (صحیح بخاری:۵۳۹)
’’آپ نے فرمایا ٹھنڈا کرو۔ پھر موذن نے ارادہ کیا کہ اذان کہے تو آپ نے اسے پھر فرمایا کہ ٹھنڈا کرو یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا پھر آپ نے فرمایا: بے شک گرمی کی شدت جہنم کے سانس میں سے ہے، پس جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔‘‘
1. عشاء کی نماز میں تاخیر
عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ آپ نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ(ﷺ) نے فرمایا: (لولا أن اشق علی أمتی لأمرتھم أن یؤخروا العشاء إلی ثلث اللیل أو نصفہ) (صحیح ترمذی:۱۴۱)
’’اگر مجھے اپنی اُمت پر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انہیں عشاء کی نماز ایک تہائی یا آدھی رات تک مؤخر کرنے کا حکم کرتا۔‘‘
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے:مکثنا ذات لیلۃ ننتظر رسول اﷲ لصلاۃ العشاء فخرج إلینا حین ذھب ثلث اللیل أو بعدہ فلا ندري أشئ شغلہ أم غیر ذلک فقال حین خرج : (أتنتظرون ھذہ الصلاۃ؟ لولا أن تثقل علی أمتي لصلیت بھم ھذہ الساعۃ) ثم أمر المؤذن فأقام الصلاۃ (صحیح ابوداود:۴۰۵)
’’ایک رات ہم نبی کے پاس تھے اور آپ عشاء کی نماز کے لئے انتظار کررہے تھے پس وہ ہماری طرف اس وقت آئے جب رات آدھی یا اس سے کچھ زیادہ ہوچکی تھی نامعلوم آپ کس چیزمیں مصروف تھے یا کچھ اور کررہے تھے جب آپ نکلے تو فرمایا: کیا تم اس نماز کا انتظار کررہے ہو اگر یہ نہ ہو تاکہ یہ میری امت پربھاری ہوجائے گا تو میں ان کو اس وقت نماز پڑھاتا پھر آپ نے اذان کا حکم دیا اور نماز کھڑی کی۔‘‘
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے جبکہ باقی نمازوں کا اپنے اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبی سے افضل عمل کے متعلق پوچھا تو فرمایا:
(الصلاۃ في أول وقتھا) ’’اول وقت میں نماز پڑھنا‘‘ (صحیح ابن خزیمہ:۳۲۷)
1. عصرکا وقت معلوم کرنے کا طریقہ
پہلا طریقہ ایک لکڑی لے کرزوال سے تھوڑی دیر پہلے سپاٹ زمین پر گاڑ دیں سایہ گھٹ رہا ہوگا،گھٹتے گھٹتے جب ایک جگہ رک جائے یہی زوال کا وقت ہے جو چند ثانیے تک رہتا ہے رکے ہوئے سایہ کی پیمائش کرلیں سایہ جب لکڑی کے برابر ہوجائے پیمائش کئے ہوئے فاصلے کو لکڑی کے برابر کے آئے ہوئے سایہ سے ملا کر نشان لگا لیں اب جب سایہ اس نشان پر پہنچے گا تو یہ ظہر کا آخری اور عصر کا اول وقت ہوگا اور ایک مثل ہوگا۔دوسرا طریقہ لکڑی کو گاڑ دیا جائے اور زوال کا سایہ جب رُک جائے تو اس لکڑی کو نکال کر سایہ کی انتہا پر گاڑ دیا جائے جب سایہ بڑھنا شروع ہو اور لکڑی کے مثل ہوجائے بس یہی عصر کا اول وقت ہے۔ سایہ پیمائش کرتے ہوئے کسی بھی صورت میں زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہوگا۔
1. نماز کے مکروہ اوقات اورمقامات
مکروہ اَوقات عقبہ بن عامر جہنی سے روایت ہے کہثلاث ساعات کان رسول اﷲ! ینھانا أن نصلي فیھن،أو أن نقبر فیھن موتانا،حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع،وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب (صحیح نسائی :۵۴۶)
’’نبی نے ہمیں تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، جب سورج طلوع ہورہا ہو یہاں تک کہ بلندہوجائے۔جب سورج نصف آسمان پر ہویہاں تک کہ وہ ڈھل جائے (یعنی زوال کا وقت) اور جس وقت سورج غروب ہونا شروع ہوجائے۔‘‘
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نہی رسول اﷲ! عن صلاتین: بعد الفجر حتی تطلع الشمس،وبعد العصر حتی تغرب الشمس (صحیح بخاری:۵۸۸)
’’رسول اللہ(ﷺ) نے دو (وقتوں میں) نمازوں سے منع فرمایا فجر (کی نماز) کے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور عصر (کی نماز کے) بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے۔‘‘
لہٰذا مکروہ اوقات یہ ہوئے :
• نماز فجر کے بعد سے جب تک سورج اچھی طرح نکل نہ آئے • زوال کے وقت • عصر کی نماز کے بعد سے سورج جب تک غروب نہ ہوجائے اگر کسی کی صبح کی سنتیں رہ گئی ہوں صرف اس کے لئے اجازت ہے کہ وہ پڑھ لے جیساکہ قیس کہتے ہیں کہ نبی نے مجھے فجر کی نماز کے بعد نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا (مھلا یا قیس أصلاتان معا) اے ابو قیس ٹھہر جا! کیا تو دو نمازیں پڑھ رہا ہے۔ میں نے کہا یارسول اللہ صبح کی دو سنتیں مجھ سے رہ گئی تھیں آپ نے فرمایا: (فلا إذن) (تب اجازت ہے)(صحیح ترمذی:۳۴۶) اسی طرح اگر نماز پڑھتے پڑھتے فجر اور عصر کے وقت سورج طلوع اور غروب ہوگیا اس کی باقی نمازدرست ہوگی۔ ابوہریرہ سے روایت ہے آپ (ﷺ)نے فرمایا:من أدرک من العصر رکعۃ قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ومن أدرک من الفجر رکعۃ قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک (صحیح مسلم:۶۰۹)
’’جس نے عصر کی نماز میں سے سورج غروب ہونے سے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی اور جس نے فجر کی نما زمیں سے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی۔‘‘
اسی طرح مسجد حرام ان ممنوعہ اوقات سے مستثنیٰ ہے اس میں دن رات کی کسی بھی گھڑی میں نمازاور کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے۔ جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ نبی(ﷺ) نے فرمایا: (یابني عبد مناف،لا تمنعوا أحدا طاف بہذا البیت وصلی اَیّۃ شاء من لیل أو نہار) (صحیح ترمذی:۶۸۸)
’’اے بنی عبدمناف! کسی کو بیت اللہ کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو خواہ وہ رات دن کی کسی گھڑی میں بھی (یہ عبادت) کررہا ہو۔‘‘
1. مکروہ مقامات
قبرستان اور حمام قبرستان اور حمام میں نبی نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (الأرض کلھا مسجد إلا الحمام والمقبرۃ) (صحیح ابوداود:۴۶۳)
’’حمام اور قبرستان کے علاوہ ساری زمین پرسجدہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اونٹوں کے باڑے میں
اونٹوں کے باڑ ا میں نماز پڑھنا منع ہے۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ نبی سے اونٹوں کے باڑا میں نما زپڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (ﷺ)نے فرمایا: (لا تصلوا في مَبَارک الإبل) (صحیح ابوداود:۴۶۴)
’’اونٹوں کے باڑوں میں نماز نہ پڑھو۔‘‘
1. پانچ نمازوں میں فرض و نفل رکعات کی تعداد
فرائض ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد ۱۷ ہے جو صحیح روایات اور اُمت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔سنت مؤکدہ اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپ کی عادت اور معمول تھا کی تعداد زیادہ سے زیادہ ۱۲ ہے جس کی تاکید و ترغیب بھی آپ سے منقول ہے۔ اُمّ حبیبہ فرماتی ہیں: سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: (من صلی اثنی عشرۃ رکعۃ فی یوم ولیلۃ بني لہ بیت فی الجنۃ) (صحیح مسلم:۷۲۸)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے سنا جو شخص دن اور رات میں ۱۲ رکعات پڑھ لے، ان کی وجہ سے اس کے لئے جنت میں ایک محل بنا دیا جاتا ہے‘‘
فجر
تعداد رکعات : ۴ ( ۲ نفل+ ۲ فرض)نوافل اُمّ المومنین حفصہ فرماتی ہیں کہ’’کان إذا سکت المؤذن من الأذان لصلاۃ الصبح وبدأ الصبح رکع رکعتین خفیفتین قبل أن تقام الصلاۃ‘‘ (صحیح مسلم:۷۲۳)
’’جب مؤذن اذان کہہ لیتااور صبح صادق شرو ع ہوجاتی تو آپ (ﷺ) جماعت کھڑی ہونے سے پہلے مختصر سی دو رکعتیں پڑھتے۔‘‘
فرائض
ابو برزہ اسلمی سے روایت ہے کہ آپ صبح کی نماز پڑھاتے: وکان یقرأ فی الرکعتین أو أحدھما ما بین الستین إلی المائۃ
’’ اورآپ دو رکعتوں میں یا کسی ایک میں ساٹھ سے سو تک آیات تلاوت فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۱)
آپ ﷺ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت ثابت ہے جیساکہ عائشہ فرماتی ہیں: أن النبي ﷺ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاہدۃ منہ علی رکعتین قبل الصبح (صحیح مسلم:۷۲۴)
’’بے شک نبی نوافل میں سے سب سے زیادہ اہتمام صبح کی سنتوں کا کرتے تھے۔‘‘
ظہر
زیادہ سے زیادہ رکعات :۱۲ (۲یا ۴ نفل+۴ فرض+۲ یا ۴ نفل)نوافل عائشہ فرماتی ہیں کہکان یصلي فی بیتي قبل الظہر أربعا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین (صحیح مسلم:۷۳۰)
’’آپ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے اور لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد گھر واپس آکر دو رکعات پڑھتے تھے۔‘‘
ابن عمر فرماتے ہیں:صلیت مع النبيﷺ سجدتین قبل الظہر السجدتین بعد الظہر(صحیح بخاری:۷۲)
’’میں نے نبی ﷺکے ساتھ دو رکعات ظہر سے پہلے اور دو ظہر کی نماز کے بعد پڑھے۔‘‘
اُمّ حبیبہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (من حافظ علی أربع رکعات قبل الظہر وأربع بعدھا حرم علی النار) (صحیح ابوداود:۱۱۳۰)
’’جس شخص نے ظہر سے قبل اور بعد چار چار رکعات نوافل کا اہتمام کیا، اس پر جہنم کی آگ حرام کردی گئی ہے۔‘‘ مذکورہ بالا روایات سے ظہرکی سنتوں کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ۱۶ہیں اور ان میں کم از کم ۴ رکعات نوافل موکدہ ہیں جیسا کہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: أن النبی کان لا یدع أربعا قبل الظہر رکعتین قبل الغداۃ (صحیح بخاری:۱۱۸۲)
’’نبی ظہر سے پہلے کی چار رکعات اور فجر سے پہلے کی دو رکعات کبھی نہ چھوڑتے۔‘‘
فرائض
ابوقتادہ سے روایت ہے کہ ’’أن النبي کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ‘‘ (صحیح بخاری:۷۷۶)
’’بے شک نبی(ﷺ) ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھتے…الخ‘‘
عصر
تعداد رکعات: ۸ (۴ نفل +۴ فرض)نوافل علی(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہکان النبي ﷺ یصلي قبل العصر أربع رکعات( صحیح ترمذی:۳۵۳)
’’نبی عصر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘
ابوسعیدخدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں: کنا نحرز قیام رسول اﷲ فی الظہر والعصر۔۔۔فحزرنا قیامہ في رکعتین الاولیین من العصر علی قدر قیامہ فی الاخریین من الظہر وفي الاخریین من العصر علی النصف من ذلک( مسلم:۴۵۲)
’’ ہم رسول اللہ کے ظہر اور عصر کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے… عصر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس طرح کرتے کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر ہوتا اور آخری دو رکعتوں کا قیام عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف ہوتاتھاـ۔‘‘
عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات نوافل غیر موکدہ ہیں،کیونکہ اس پر آپ کا دوام ثابت نہیں۔البتہ آپ نے ان نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا: رحم اﷲ امرأ صلی قبل العصر أربعا (صحیح ابوداود:۱۱۳۲)
’’جس شخص نے عصر سے قبل چار رکعات نوافل ادا کئے اللہ اس پر رحم فرمائے۔‘‘
ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعات کرکے پڑھنا بھی نبی سے ثابت ہے جیسا کہ علی فرماتے ہیں: یصلي قبل الظہر أربعا وبعدھا رکعتین وقبل العصر أربعا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم (صحیح ترمذی:۴۸۹)
’’اور نبی کریم(ﷺ) نے ظہر سے پہلے چار رکعات نوافل ادا کئے اور دو بعد میں اسی طرح چار رکعات نوافل عصر کی نماز سے پہلے ادا کئے اور آپ نے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا۔‘‘
مغرب
تعداد رکعات: ۵ (۳ فرض+ ۲ نفل)فرائض سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرنے (سفر میں) مغرب اور عشاء اکٹھی کیں: فصلی المغرب ثلاثا ثم صلی العشاء رکعتین ثم قال ھکذا رسول اﷲیصنع فی ھذا المکان (صحیح نسائی :۴۷۰) ’’ اور انہو ں نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات پڑھائیں اور فرمایا کہ اس جگہ رسول اللہنے اسی طرح کیا تھا۔‘‘ نوافل: عائشہ نبی کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین(صحیح مسلم:۷۳۰)
’’اور وہ لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے پھر میرے گھر میں داخل ہوتے اور دو رکعت نماز نوافل ادا کرتے۔‘‘
ملحوظہ: مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپ سے ثابت ہیں۔ عبداللہ المزنی سے روایت ہے کہ أن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین (ابن حبان:۱۵۸۶)
’’رسول اللہﷺ نے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل ادا کیے۔‘‘
لیکن یہ دو رکعت موکدہ نہیں ہیں۔ عبداللہ بن المزنی سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (صلوا قبل صلاۃ المغرب)قال فی الثالثۃ (لمن شائ) کراھیۃ أیتخذھا الناس سنۃ (صحیح بخاری:۱۱۸۳)
’’مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھو تین دفعہ فرمایا اور تیسری مرتبہ فرمایا جو چاہے۔ تاکہ کہیں لوگ اسے موکدہ نہ سمجھ لیں۔‘‘
عشاء
تعداد رکعات + کم از کم ایک وتر: ۷ (۴فرض +۲؍۴نفل+۱ وتر) فرائض عمر نے سعد سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپ نے جواب دیا: أما أنا واﷲ فإنی کنت أصلی بہم صلاۃ رسول اللہ ما أخرم عنہا أصلی صلاۃ العشاء فأرکد فی الأولیین،وأخف فی الأخریین قال:ذاک الظن بک یا أبا إسحٰق (صحیح بخاری:۷۵۵)
’’اللہ کی قسم میں انہیں نبی کی نماز کی طرح کی نماز پڑھاتا تھا اور اس سے بالکل روگردانی نہ کرتا تھا۔میں عشاء کی نماز جب پڑھاتا تو پہلی دورکعتوں کو لمبا کرتا اور آخری دو رکعتوں کو ہلکا۔ عمر فرمانے لگے: اے ابو اسحاق تمہارے بارے میرا یہی گمان تھا۔‘‘
عشاء کے فرضوں کے بعد نبی سے ۲ اور ۴ نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نوافل: عبداللہ بن عمر کہتے ہیں: صلیت مع النبی… وسجدتین بعد العشائ… الخ (صحیح بخاری؛۱۱۷۲)
’’میں نے نبی کے ساتھ ۔ ۔ ۔ عشاء کے بعد دو رکعات نماز پڑھی۔‘‘
ابن عباس فرماتے ہیں:ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ کے گھر میں گزاری: فصلی رسول اﷲ العشاء ثم جاء فصلی أربع رکعات ثم نام
’’آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی پھر گھر آئے اور چار رکعات نوافل ادا کئے اور سوگئے۔‘‘ (صحیح بخاری:۶۹۷)
نبی کے عام حکم کہ(بین کل اذانین صلاۃ بین کل اذانین صلاۃ) ثم قال في الثالثۃ (لمن شائ)(صحیح بخاری:۶۲۷)
’’آپ نے فرمایا ہر دو آذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان نماز ہے ہر دو آذانوں کے درمیان نماز ہے تیسری دفعہ آپ نے فرمایا جو چاہے۔‘‘
ثابت ہوتا ہے کہ ہر نماز کی امامت سے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے بھی دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپ سے ثابت ہے جیسا کہ اُم سلمہ سے روایت ہے کہ: أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین (صحیح ترمذی:۳۹۲) ’’آپ وتر کے بعد دو رکعت نوافل ادا کرتے تھے۔‘‘ وتر:آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔ ایوب انصاری سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل (صحیح ابوداود:۱۲۶۰)
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘
ام سلمہ فرماتی ہیں:’’کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ (صحیح ابن ماجہ:۹۸۰)
وتر پڑھنے کا طریقہ تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ عائشہ سے روایت ہے : کان یوتر برکعۃ وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ’’آپ ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔ مزید ابن عمر کے متعلق ہے کہ: ’’صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانۃ ثم قام فأوتر برکعۃ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۹۱،۹۲) ’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘ پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ فرماتی ہیں: کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعۃ یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرہا(صحیح مسلم:۷۳۷) سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔ عائشہ سے ہی روایت ہے۔ اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ: کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینہن بتسلیم ولا کلام (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰) ’’نبی سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘ نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ نبی کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں: ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنۃ … ثم یقوم فیصلي التاسعۃ ’’آپ نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶) قنوتِ وتر (آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔ دلیل:ابی بن کعب سے روایت ہے:’’أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع‘‘(صحیح ابن ماجہ:۹۷۰) ’’بے شک رسول اللہ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘(اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ إنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)(صحیح ترمذی:۳۸۳،بیہقی :۲؍۲۰۹) ’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی، مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘
1. نماز کے چند ضروری مسائل
کپڑوں کا پاک ہونا نماز پڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ نمازی کے کپڑے پاک ہوں۔ معاویہ نے اُم حبیبہ سے پوچھا: ھل کان رسول اﷲ! یصلی في الثوب الذی یجامعھا فیہ؟ فقالت نعم! إذا لم یرفیہ أذی (صحیح ابوداود:۳۵۲) ’’کیا رسول اللہ1 جن کپڑوں میں مجامعت کرتے انہی کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے؟ انہوں نے کہا ہاں جب اس پر گندگی نہ دیکھتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ} (المدثر:۴،۵) ’’اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کرو اور ناپاکی کو چھوڑ دو۔‘‘استقبالِ قبلہ نمازی کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ جب نماز کا ارادہ کرے تو قبلہ رخ ہوکر کھڑا ہو۔ آپ نے ایک آدمی کو نماز درست کرواتے ہوئے فرمایا: (إذا قمت إلی الصلاۃ فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلۃ فکبر) (صحیح بخاری:۶۲۵۱) ’’جب تم نماز کا قصد کرو تو اچھی طرح وضو کرلو پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہو۔‘‘ جس وقت اس عمل کو کرنا دشوار ہو وہاں عذر کے باعث اجازت ہے کہ کسی طرف بھی منہ کیا جاسکتا ہے مثلاً جنگل ، صحرا یا ایسی جگہ جہاں قبلہ کی سمت معلوم نہ ہوسکے اسی طرح جنگ کے دوران اور جب قبلہ رخ ہونا ممکن ہی نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: {فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُکْبَانًا} ’’اور تم کو خوف ہو تو پیادہ یا سوار (ہرصورت میں نماز ادا کرو)‘‘(البقرہ:۲۳۹) اس سے معلوم ہوا کہ بھاگتے ہوئے یا لڑتے ہوئے انسان کا رخ کسی طرف بھی ہوسکتا لہٰذا وہ کسی سمت میں نماز ادا کرسکتا ہے اور اسی طرح عام حالات میں سواری پر نفل نماز ادا کرنی ہو تو سواری کا رخ ایک دفعہ قبلہ رخ کرلینا چاہئے اب نماز کے دوران سواری کا رخ بدل بھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ انس بن مالک سے روایت ہے :أن رسول اﷲ کان إذا سافر فأراد أن یتطوع استقبل بناقتہ القبلۃ فکبرثم صلی حیث وجہہ رکابہ (صحیح ابوداو:۱۰۸۴) ’’آپ جب سفر میں ہوتے اور نفل نماز کا ارادہ کرتے تو اپنی اونٹنی کا رخ قبلہ کی طرف کرلیتے اور تکبیر کہتے اورپھر نماز پڑھتے اور سواری کا رخ جدھر ہوتا سو ہوتا۔‘‘ لیکن یہ یاد رہے کہ سواری پر صرف نفل نماز ہوسکتی ہے آپ سے سواری پر فرض نماز ثابت نہیں۔ جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ : أن النبی کان یصلي علی راحلتہ نحو المشرق فإذا أراد أن یصلي المکتوبۃ نزل فاستقبل القبلۃ (صحیح بخاری:۱۰۹۹) ’’نبیمشرق کی طرف سواری پر نماز پڑھتے اور جب فرض نماز کا ارادہ کرتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے۔‘‘اقتداے امام امام کی اقتدا فرض ہے امام کی اقتداء نہ کرنے سے نماز باطل ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اقتداء امام کی تاکیداور اس کے خلاف پر وعید کی بہت سے روایات منقول ہیں، جن میں چند ایک یہ ہیں:١ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (إنما جعل الإمام لیؤتم بہ فإذا کبر فکبروا ولا تکبروا حتی یکبر وإذا رکع فارکعوا ولا ترکعوا حتی یرکع وإذا سجد فاسجدوا ولا تسجدوا حتی یسجد… الخ) (صحیح ابوداود:۵۶۳) ’’امام تو بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب وہ تکبیر کہے پھرتم تکبیر کہو اور اس وقت تک تکبیر نہ کہو جب وہ تکبیر نہ کہہ لے اور جب وہ رکوع کرتے تب تم رکوع کرو اور اس وقت تک رکوع نہ کرو جب تک وہ رکوع نہ کرلے اور جب وہ سجدہ کرے تب سجدہ کرو اور اس وقت تک سجدہ نہ کرو جب وہ سجدہ نہ کرلے… الخ‘‘ ٢ ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (أما یخشی أحدکم إذا رفع رأسہ قبل الإمام أن یجعل اﷲ رأسہ رأس حمار؟ أو یجعل اﷲ صورتہ صورۃ حمار؟) (صحیح بخاری:۶۹۱) ’’تم میں سے کسی کو اس بات کا ڈر نہیں کہ جب وہ امام سے پہلے سراٹھائے تو اللہ اس کے سر کو گدھے کا سر یا اس کی صورت گدھے کی صورت بنا دے؟۔‘‘c صحابہ کرام امام کی اقتدا کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ براء بن عازب بیان فرماتے ہیں : کان رسول اﷲ! إذا قال: (سمع اﷲ لمن حمدہ) لم یحن أحد منا ظھرہ حتی یقع النبی! ساجدًا ثم نقع سجوداً بعدہ (صحیح بخاری:۶۹۰) ’’رسول اللہ جب (سمع اﷲ لمن حمدہ) کہتے تو ہم سے ایک بھی شخص اپنی کمر تک نہ جب تک وہ سجدے میں نہ چلے جاتے پھر ہم اس کے بعد سجدہ کیلئے جھکتے۔‘‘تعدیل ارکان نماز کے اَرکان کو صحیح طریقے سے بجا لانانماز کی قبولیت کے لئے شرط ہے۔ آپ نے فرمایا: (صلوا کما رأیتموني أصلي)(صحیح بخاری:۶۳۱) ’’نماز ویسے پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔‘‘ ابوہریرہ سے روایت ہے: ایک شخص مسجدمیں داخل ہوا جبکہ آپ مسجد کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے نماز پڑھی اور آکر آپ پر سلام بھیجا۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: لوٹ جا اور نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی پس وہ لوٹا اور نماز پڑھ کر آیا اور آپ پر سلام بھیجا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا لوٹ جا (دوبارہ) نماز پڑھ تمہاری نماز نہیں ہوئی اس کے بعد اس نے کہا یارسول اللہ مجھے سکھا دیں (کہ میں کیسے نماز پڑھوں) فرمایا: (إذا قمت إلی الصلاۃ فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلۃ فکبر ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن ثم ارکع حتی تطمئن راکعا ثم ارفع حتی تستوي قائما ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا ثم افعل ذلک في صلاتک کلھا ) (صحیح بخاری:۶۲۵۱) ’’جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اچھی طرح وضو کرلو پھر قبلہ کی طرف منہ کرو اور اللہ اکبر کہو پھر قرآن سے جومیسر ہو پڑھ پھر رکوع کر یہاں تک کہ تو اچھی طرح رکوع کرے پھراٹھ حتیٰ کہ تو کھڑے ہوتے ہوئے برابر ہوجائے پھر سجدہ کر یہاں تک کہ اچھی طرح سجدہ کرے پھر سر اٹھا یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جائے پھر سجدہ کر حتیٰ کہ اچھی طرح سجدہ کرلے پھر سر اٹھا حتیٰ کہ اطمینان سے بیٹھ جائے پھر اسی طرح تمام نماز میں کرتا رہ۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہوا کہ نبی نے مسیء الصلاۃ کو نماز میں تعدیل ارکان کی تاکید فرمائی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آدمی کی نماز میں ایک خرابی یہ بھی تھی ۔ حذیفہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ رکوع و سجود صحیح طور پر نہ کررہا تھا۔ اس کے نماز مکمل کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: لومت مت علی غیر سنۃ محمد ﷺ (صحیح بخاری:۳۸۹) ’’اگر تو (اسی حالت میں) مرگیا تو محمد کی سنت کے علاوہ پر مرے گا۔ ‘‘
1. عورت کا ننگے سرنما زپڑھنا
یوں تو عورت کا سارا جسم ہی ستر ہے ،کیونکہ اکثر طور پر سر کا حصہ ننگا رکھنے میں سستی ہوجاتی ہے اس لئے اس کے بارے میں تاکید آئی ہے۔ عائشہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: )لا یقبل اﷲ صلاۃ حائض إلا بخمار( (صحیح ابوداود:۵۹۶)
’’اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔‘‘
کپڑا یا بال سمیٹنا
نمازمیں کپڑا یا بالوں کو سمیٹنا منع ہے۔ عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ) أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم ولا أکف ثوبا ولا شعرا( (صحیح مسلم:۴۹)
’’میں پابند کیا گیا ہوں کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور (نماز میں) کپڑا اور بالوں کو نہ لپیٹوں ۔‘‘
اسی طرح عبداللہ بن عباس نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے دیکھا اور وہ جوڑا کئے ہوئے تھا۔ آپ نے وہ کھول دیا جب نماز کے بعد وہ آیا اور عبداللہ بن عباس سے پوچھنے لگا کہ آپ نے کیوں ایسا کیا ۔ جس پر آپ نے کہا :إنی سمعت رسول اﷲ یقول إنما سئل ھذا مثل الذي یصلی وھو مکتوف (صحیح مسلم :۴۹۲)
’’میں نے نبی سے سنا ہے کہ اس شخص کی مثال ایسے ہی ہے جیسے وہ ستر کھولے ہوئے ہے۔‘‘
اشتمال الصمائ،سدل اور منہ ڈھانپنا
چادر کی اس طرح بکل مارنا کہ ہاتھوں کو حرکت دینا محال ہوجائے اس سے نبی نے منع فرمایا ہے۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ نہی رسول اﷲ! عن اشتمال الصماء (صحیح بخاری:۳۶۷)
’’ نبی ﷺ نے سختی سے چادر کی بکل مارنے سے منع فرمایا۔‘‘
اسی طرح نما زمیں سدل اور منہ پر کپڑا ڈالنے کی ممانعت ہے۔ کپڑے کے دونوں سروں کو اپنے سامنے لٹکا لینے کو سدل کہتے ہیں۔
ابوہریرہ سے روایت ہے : أن رسول اﷲ نہی عن السدل فی الصلاۃ وأن یغطی الرجل فاہ (صحیح ابوداود:۵۹۷)
’’نبی نے نما زمیں سدل سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ آدمی اپنا منہ ڈھانپے۔‘‘
جوتوں سمیت نماز
جوتے پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ عمل آپ سے ثابت ہے۔جس کے دلائل یہ ہیں: شداد بن اوس سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: )خالفوا الیہود فإنھم لایصلون فی نعالھم ولا خفافھم( (صحیح ابوداود:۶۰۷)
’’یہود کی مخالفت کرو پس بے شک وہ جوتوں اور موزوں میں نما زنہیں پڑھتے۔‘‘
ابوسلمہ نے انس سے دریافت کیا کہأکان النبی یصلي فی نعلیہ قال: نعم (صحیح بخاری:۳۸۶)
’’کیا نبی اپنے جوتوں میں نماز پڑھتے تھے ، کہنے لگے ہاں۔‘‘
لیکن یاد رہے کہ جوتا اگر بالکل صاف ہو یعنی اس پر گندگی نہ لگی ہو تب ہی اس میں نماز ادا ہوسکتی وگرنہ جوتے پہن کر نمازدرست نہیں۔
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ نے اپنے جوتے اتار دیئے جب لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے نماز کے بعد آپ نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کس چیز نے مجبور کیا کہ تم اپنے جوتے اتارو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ جوتے اتار رہے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے آپ نے فرمایا: مجھے تو جبریل نے خبر دی کہ تمہارے جوتوں کے نیچے گندگی ہے اور آپ نے فرمایا: )إذا جاء أحدکم إلی المسجد فلینظر فإن رأی فی نعلیہ قذرا أو أذی فلیمسحہ ولیصل فیھما( (صحیح ابوداود:۶۰۵)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو پہلے اپنے جوتے دیکھ لے اگر ان پرگندگی وغیرہ لگی ہو تو اس کو (زمین پر) رگڑے اور ان میں نماز ادا کرے۔‘‘
لہٰذا جوتا اگر گندگی سے پاک ہو تو ان میں نماز پڑھنادرست ہے۔ تاہم آج کل مسجدوں میں قالین اور صفوں کی صفائی کے پیش نظر جوتے اتارکر نماز پڑھ لینی چاہئے آپ سے جوتے اتار کر نماز پڑھنا بھی ثابت ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ رأیت رسول اﷲ یصلي حافیا منتعلاً (ایضاً:۶۰۸)
’’ میں نے رسول اللہ کو ننگے پاؤں اور جوتے سمیت نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
نماز میں آگے سے گزرنے والے کو نمازی روکے
نمازی کے آگے سے اگر کوئی گزر رہا ہو تو نمازی کوحکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اسے روکے بلکہ اگر زبردستی کرنی پڑے تب بھی کوئی حرج نہیں ۔ ابو سعید سے روایت ہے کہ میں نے نبی سے سناکہ انہوں نے فرمایا: (إذا صلی أحدکم إلی شیئ یسترہ من الناس فأراد أحد أن یجتاز بین یدیہ،فلیدفعہ فإن أبی فلیقاتلہ فإنما ھو شیطان ) (صحیح بخاری:۵۰۹)
’’اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزرنے کی کوشش کرے تو نمازی کو چاہئے کہ وہ اسے روکے اگر وہ باز نہ آئے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
1. نماز میں سلام کا جواب
نماز میں سلام کا جواب صرف ہاتھ کے اشارہ سے دیا جاسکتا ہے چونکہ نماز میں کلام نماز کو باطل کردیتا ہے اس لئے نمازی کا ہاتھ کے اشارہ سے جواب دے دینا ہی کافی ہے یا پھر نماز سے فارغ ہوکر جواب دے دیا جائے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہکنا نسلم علی النبی! وھو في الصلاۃ فیرد علینا من عند النجاشی سلمنا علیہ فلم یرد علینا وقال )إن فی الصلاۃ شغلا((صحیح بخاری:۱۱۹۹)
’’آپ نماز میں ہوتے اور ہم آپ پر سلام بھیجتے تو آپ پر سلام بھیجتا تو آپ جواب دے دیتے جب ہم نجاشی(حبشہ )سے واپس آئے تو آپ کو سلام کیا آپ نے ہمیںجواب نہ دیا (بعد میں) آپ نے فرمایا کہ میں نماز میں مشغول تھا۔‘‘
صہیب سے روایت ہے کہ میں نبی کے پاس سے گزرا آپ نماز اداکررہے تھے میں نے سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب انگلی کے اشارے سے دیا۔ (صحیح ابوادود:۸۱۸)
1. غسل ِواجب میں وضو شامل ہے
غسل ِواجب کے بعد دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں کیونکہ وضو اسی غسل میں شامل ہے یا اگر نواقض وضو میں سے کوئی عارضہ لاحق ہوجائے ، مثلاً شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانا وغیرہ تو غسل کے بعد نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہوگا۔ میمونہ آپ کے غسل جنابت کا طریقہ یوں بیان کرتی ہیں:’’فغسل کفیہ مرتین أو ثلاثا ثم أدخل یدہ فی الإناء ثم أفرغ بہ علی فرجہ وغسلہ بشمالہ ثم ضرب بشمالہ الأرض فدلکھا دلکا شدیدا ثم توضأ وضوء ہ للصلوۃ ثم أفرغ علی رأسہ ثلاث حفنات مل ء کفہ ثم غسل سائر جسدہ ثم تنحی عن مقامہ ذلک فغسل رجلیہ‘‘ (صحیح مسلم:۳۱۷)
’’پس آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھوئے پھر اپنا (دایاں) ہاتھ برتن میں ڈالا اور اس کے ساتھ اپنی شرمگاہ پر پانی انڈیلہ اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا پھر بایاں ہاتھ زمین پرمارا اور اسے اچھی طرح رگڑا پھر (سر کے مسح تک) نماز کے وضو کی طرح وضو کیا پھر تین چلو پانی بھر کر سر پر ڈالے پھرسارے بدن کو (پانی ڈال کر) دھویا پھر اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔‘‘
عائشہ فرماتی ہیں:’’کان رسول اﷲ یغتسل ویصلي الرکعتین وصلاۃ الغداۃ ولا أراہ یحدث وضوء ا بعد الغسل‘‘(صحیح ابوداود:۲۲۵)
’’آپ غسل کرتے اور دورکعتیں فجر کی دو رکعتیں اور فرض پڑھتے اور غسل کے بعد نیا وضو نہ کرتے تھے۔‘‘
غسل کرتے ہوئے سر کو پہلے دائیں اور پھر بائیں سے دھونا مسنون ہے۔ عائشہ فرماتی ہیں: فبدأ بشق رأسہ الأیمن ثم الأیسر(صحیح بخاری:۲۵۸)
’’پس آپ سر کے دائیں حصے سے (پانی ڈالنا) شروع کرتے پھر بائیں طرف۔‘‘ عورت کے لئے ضروری نہیںکہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے بلکہ اگر وہ گندھے ہوئے بالوں پرہی پانی انڈیل لیتی ہے تو اس کی اجازت ہے۔ اُمّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی سے پوچھا کہ میں سر پر سختی سے مینڈھیاں باندھنے والی عورت ہوں توکیا غسل جنابت کے لئے میں اس کو کھول لیا کروں۔ آپ نے فرمایا: )لا إنما یکفیک أن تحثی علی رأسک ثلاث حثیات ثم تفیضین علیک الماء فتطھرین( (صحیح مسلم:۳۳۰)
’’نہیں نہیں یہی کافی ہے کہ تو تین لپ پانی کے اپنے سر پر ڈال لے پھراپنے اوپر پانی بہالے پس تو پاک ہوجائے گی۔‘‘
1. نماز کی بعض ضروری اصطلاحات
تکبیر تحریمہ: اسے ’تکبیر اولیٰ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ نماز میں کھڑے ہوتے وقت اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا ہے۔ثنا دعائے استفتاح کا پڑھنا مثلاً سبحانک اللہم وبحمدک وتبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک قیام تکبیر تحریمہ سے لے کر رکوع تک کا عمل تعوذ أعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم پڑھناتسمیہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھناقرا ء ت قیام میں قرآنِ مجید پڑھناسکتہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورہ فاتحہ کے بعد چند لمحے خاموش رہنارکوع قیام کے بعد گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر جھکنارفع یدین رکوع جاتے، رکوع سے اٹھتے ہوئے اور تیسری رکعت سے اُٹھ کر دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاناقومہ رکوع کے بعد کھڑا ہونے کے بعد تھوڑی دیر ٹھہرنا سجدہ قومہ سے اس حالت میں چہرے کو زمین پر رکھنا کہ آدمی کی ٹیک سات اعضا پر ہو : دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے ،دونوں پاؤں اور چہرہ (ناک،پیشانی) جلسہ دو سجدوں کے درمیان تھوڑی دیر ٹھہرے رہناجلسہ استراحت دوسرے سجدے کے بعد نئی رکعت کے لئے اٹھنے سے پہلے اتنی دیر بیٹھنا کہ جوڑ اپنی جگہ پر آجائیں۔تشہد نماز میں التحیات کے لئے بیٹھناقعدہ اولیٰ چار رکعتوں والی نماز میں دوسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد تشہد کے لئے بیٹھناقعدہ اخیرہ آخری رکعت میں سلام کے لیے بیٹھنافراش قعدہ اولیٰ میں دایاں پاؤں کھڑا کرنا اوربائیں پاؤں کو دوہرا کرکے اوپر بیٹھناتورّک آخری قعدہ میں دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں پاؤںکو پنڈلی کے نیچے سے نکال کر سیرین پر بیٹھنااِرسال ہاتھوں کو قومہ کے وقت سیدھا چھوڑ دیناسلام ؍ تحلیل السلام علیکم کہتے ہوئے نماز کے اختتام پر دائیں بائیں منہ پھیرنا ذراع کہنی کے سرے سے درمیانی انگلی کے سرے تک کا مکمل ہاتھساعد کہنی سے ہتھیلی تک کا حصہجہری نماز جس میں امام اونچی آواز سے قراء ت کرتا ہے مثلاًمغرب ،عشائ،فجر وغیرہسری نماز وہ نماز جس میں امام اونچی آواز سے قراء ت نہیں کرتا مثلاًظہر ،عصر وغیرہالوسطیٰ درمیانی انگلیالسبابۃ انگشت ِشہادتاِبھام انگوٹھا
1. مختصر طریقہ نماز
نماز کے لیے قبلہ رخ کھڑے ہوں اور تکبیر کہ کر دونوں ہاتھ کندھوں یاکانوں تک اٹھائیں اور سینہ پر ہاتھ باندھ لیں۔ ثنا کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں اور تعوذ وتسمیہ کے بعد قرآن میں سے کچھ پڑھیں،سری نمازوں میں آہستہ اور جہری نمازوں میں امام اونچی آواز میں پڑھے۔ سورہ فاتحہ کے بعد تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کریں اور رکوع میں چلے جائیں اور رکوع کی تسبیح بیان کریں۔ رکوع کے بعد سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے ہوئے اور رفع الیدین کرتے ہوئے قومہ میں آ جائیں۔ قومہ میں تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں۔ سات اعضا(دونوں گھٹنے،دونوں ہاتھ،دونوں پنجے، ناک اور ماتھا) کی ٹیک پر سجدہ کرتے ہوئے تسبیحات واَدعیہ ماثورہ پڑھیں۔ تکبیر کہہ کر سجدے سے سر اٹھائیں اور بائیں پاؤں کو دہرا کر کے دائیں کو گاڑ کر بیٹھ جائیں اور دو سجدوں کے درمیانی جلسہ کی دعا پڑھیں۔ تکبیر کہہ کر سجد ے میں چلے جائیں اور پہلے سجدہ والی دعائیں دہرائیں۔ تکبیر کہہ کر سجدہ سے سر اٹھا لیں اور تھوڑی دیر کے لیے جلسہ اِستراحت کریں اور دوسری رکعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت میں بھی وہی اُمور ملحوظ رکھیں اگر چار رکعت نماز ہے تو دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تشہد بیٹھ جائیں اس کا طریقہ بھی جلسہ میں بیٹھنے کا ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کریں اور بائیں پاؤں کوبچھا کر بیٹھ جائیں اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھیں کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند ہوں۔ درمیانی انگلی کے سرے کو انگوٹھے کی جڑ میں رکھ کر شہادت کی انگلی کوسونتتے ہوئے قبلہ کی طرف اشارہ کریں اور انگلی کو تھوڑا سا خمیدہ رکھیں۔ تشہد میں التحیات اور درودشریف پڑھیں۔ تیسری رکعت کے لیے تکبیر کہہ کر کھڑے ہو جائیں اور رفع الیدین کریں۔ باقی سارا عمل پہلی رکعت کی طرح ادا کریں اس طرح چوتھی رکعت میں تشہد میں تورّک کریں اور ہاتھوں کی پوزیشن قعدہ اولیٰ کی طرح رکھیں، لیکن اس میں درود کے بعد انگلی کا اشارہ مسلسل کرتے جائیں۔درود کے بعد دعائیں پڑھیں اور دائیں بائیں السلام علیکم ورحمۃ اﷲ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہتے ہوئے سلام پھیر دیں۔
مفصل طریقہ نماز
تکبیر تحریمہ رسول اللہﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف رخ کرتے رفع الیدین کرتے اور فرماتے : اﷲ أکبر دلیل: عن أبی حمید الساعدی قال: کان رسول اﷲ إذا قام إلی الصلاۃ استقبل القبلۃ،ورفع یدیہ وقال: )اﷲ أکبر) (ابن ماجہ:۸۰۳) اور آپ(ﷺ) نے فرمایا: جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ۔ دلیل: قال رسول اﷲ! )إذا قمت إلی الصلاۃ فکبر)(صحیح بخاری:۷۵۷، صحیح مسلم: ۳۹۷) ہاتھوں کے اٹھانے کی کیفیت آپ اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔ دلیل:عن عبد اﷲ أنہ قال: رأیت رسول اﷲ إذا قام فی الصلاۃ رفع یدیہ حتی تکونا حذو منکبیہ (صحیح بخاری:۷۳۶، صحیح مسلم:۳۹۰) یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے۔ دلیل: عن مالک بن الحویرث: أن رسول اﷲ! کان إذا کبر رفع یدیہ حتی یحاذی بھما أذنیہ (صحیح مسلم:۳۹۱) لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، لیکن زیادہ حدیثوں میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کا پکڑنا یا چھونا کسی دلیل سے ثابت نہیں۔مردوں کا ہمیشہ کانوں تک اورعورتوں کا کندھوں تک رفع یدین کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ آپ(انگلیاں) پھیلا کر رفع یدین کرتے تھے۔ دلیل:عن أبی ہریرۃ قال:کان رسول اﷲ إذا دخل فی الصلاۃ رفع یدیہ مدًا (ابوداود:۷۵۳) تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنا آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھتے تھے۔ دلیل: (عن الھلب) قال:رأیت النبی! ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ قال:یضع ھذہ علی صدرہ وصف یحیی الیمنی علی الیسری فوق المفصل (مسند احمد:۵؍۲۲۶) لوگوں کو (رسول اللہﷺ کی طرف سے)یہ حکم دیا جاتاتھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔ عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلاۃ (صحیح بخاری:۷۴۰) پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کلائی اور ساعد پر رکھا۔ دلیل: عن وائل بن حجر:ثم وضع یدہ الیمنی علی ظھرکفہ الیسری والرسغ والساعد (ابوداود:۷۲۷) اگر ہاتھ پوری ذراع (ہتھیلی، کلائی اور ہتھیلی سے کہنی تک) پر رکھا جائے تو خود بخود ناف سے اوپر اور سینہ پر آجاتا ہے۔ مردوں کا ناف سے نیچے اور صرف عورتوں کا سینہ پر ہاتھ باندھنا (یہ تخصیص) کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ استفتاح رسول اللہ(ﷺ) تکبیر (تحریمہ) اور قرأت کے درمیان درج ذیل دعا (سراً یعنی بغیر جہر کے) پڑھتے تھے۔ ) اَللّٰھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ،اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ) (صحیح بخاری:۷۴۴،صحیح مسلم:۵۹۸) ’’اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری بنا دے جیسی کہ مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح (پاک) صاف کردے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے (پاک) صا ف ہوجاتا ہے، اے اللہ! میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو ڈال (اور صاف کردے)‘‘ درج ذیل دعا بھی آپ سے ثابت ہے۔ )سبحانک اللھم وبحمدک،وتبارک اسمک،وتعالیٰ جدک،ولا إلہ غیرک) (ابوداود:۷۷۵) ’’اے اللہ ! تو پاک ہے اور تیری تعریف کے ساتھ تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان بلند ہے تیرے سوا دوسرا کوئی الٰہ (معبود برحق) نہیں ہے۔‘‘ ان ثابت شدہ دعاؤں میں سے جو دعا بھی پڑھ لی جائے بہتر ہے۔ تعوذ قراء ت سے پہلے آپ أعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم پڑھتے تھے۔ ’’میں شیطان مردود (کے شر) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ دلیل: عن سعید الخدری أن رسول اﷲ! کان یقول قبل القرأۃ: )أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم) (مصنف عبدالرزاق :۲؍۸۵) آپ سے درج ذیل دعا بھی ثابت ہے۔ أعوذ باﷲ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ (ابوداود:۷۷۵) ’’میں شیطان مردود (کے شر) سے اس کے خطرے، اس کی پھونکوں اور اس کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں جو خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔‘‘ تسمیہ آپ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔ دلیل: عن نعیم المجمر قال: صلیت وراء أبی ھریرۃ فقرأ )بسم اﷲ الرحمن الرحیم) ثم قرأ بأم القرآن۔۔۔قال (أبوھریرۃ) والذی نفسي بیدہ إنی لأ شبھکم صلاۃ برسول اﷲ (نسائی:۹۰۶) ’’نعیم المجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرۃ کے پیچھے نماز پڑی تو انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔ پھر سورہ فاتحہ پڑھی۔سلام پھیرنے کے بعد ابوہریرہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتی ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم جہراً پڑھنا بھی صحیح ہے، جیسا کہ سنن نسائی میں ہے۔ ابوہریرہ نے اونچی آواز میں پڑھیi اور سراً بھی درست ہے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اورابن حبان کی روایات سے ظاہر ہے۔ کثرت دلائل کی رو سے عام طور پر سراً پڑھنا بہتر ہے اس مسئلے میں سختی کرنا بہتر نہیں۔ سورۂ فاتحہ پڑھنا تعوذ و تسمیہ کے بعد آپ سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ (دیکھئے سنن نسائی:۹۰۶) سورۃ الفاتحہ کے الفاظ یہ ہیں: {اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ٭ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ٭ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ٭ إیَّاکَ نَعْبُدُ وَإیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ٭ إھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ٭ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ}
’’سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، بہت بخشش کرنے والا بڑا مہربان ،بدلے کے دن (یعنی قیامت) کا مالک ہے،ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ،ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دکھا ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی۔‘‘
سورہ فاتحہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہئے آپ سورہ فاتحہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے اور ہر آیت پر وقف کرتے تھے۔
ام سلمہ نبی کی قراء ت کی کیفیت بیان کرتی ہیں کہ قراء ۃ رسول اﷲ )بسم اﷲ الرحمن الرحیم،الحمد ﷲ رب العالمین٭ الرحمن الرحیم٭ ملک یوم الدین٭) یقطع قراء تہ آیۃ آیۃ ’’ آپ کی قراء ت بسم اللہ الرحمن الرحیم ، الحمد للہ رب العالمین۔۔۔ الخ کو ایک ایک آیت کا ٹکڑا بناتے۔‘‘(ابوداود:۴۰۰۱) تنبیہ:سورہ فاتحہ نماز میں ضروری ہے آپ فرماتے ہیں: )لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب) (صحیح بخاری:۷۵۶) ’’جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ اور فرماتے ہیں کہ )کل صلوٰۃ لا یقرأ فیھا بفاتحۃ الکتاب فھی خداج فھی خداج) ’’ہر نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے،ناقص ہے۔‘‘(ابن ماجہ:۸۴۱) آمین سورہ فاتحہ کے بعد آپ ’آمین‘ اونچی آواز سے کہتے تھے۔ دلیل: عن وائل بن حجر أنہ صلی مع رسول اﷲ قال: فوضع الید الیمنی علی الید الیسری، فلما قال ولا الضالین )قال آمین) ’’وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر جب آپ نے ولاالضالین (جہراً) کہی تو آمین (جہراً) کہی۔‘‘ (صحیح ابن حبان:۱۸۰۲) وائل بن حجر ہی سے دوسری روایت میں ہے۔ وخفض بھا صوتہ (مسند احمد:۴؍۳۱۶، رقم:۹۰۴۸) ’’اور آپ نے اس (آمین ) کے ساتھ اپنی آواز پست رکھی۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سری نماز میں آمین سراً کہنی چاہئے ۔سری نمازوں میں آمین سراً کہنے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ قرأت سے پہلے کیا پڑھے! سورہ سے پہلے آپ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے۔ دلیل: انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک دن ہم نبی کے پاس تھے کہ آپ نے سر اٹھایا تو ہنس رہے تھے ہم نے پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے ہنسایا قال رسول اﷲ )أنزلت علی سورۃ آنفا)فقرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم{إنَّا أعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِّرَبِّکَ وَانْحَرْ إنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الاَبْتَرُ}(صحیح مسلم:۴۰۰) ’’ آپ نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر سورۃ نازل ہوئی ہے پھر آپ نے پڑھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ، إنا أعطیناک الکوثر…الخ‘‘ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان نے ایک دفعہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھا تو مہاجرین و انصار سخت ناراض ہوئے تھے اس کے بعد معاویہ سورت سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: أن أنس بن مالک قال صلی معاویۃ بالمدینۃ صلوۃ فجھر فیھا بالقرأۃ فقرا فیھا بسم اﷲ الرحمن الرحیم لام القرآن ولم یقرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعدھا حتی قضی تلک القرأۃ فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین والانصار من کل مکان یا معاویۃ اسرقت الصلوٰۃ أم نسیت فلما صلی بعد ذلک قرأ بسم اﷲ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعد أم القرآن (مستدرک حاکم:۱؍۲۳۳، الام للشافعی:۱؍۹۳) قرأت قرآن نبیﷺ نے فرمایااقرأ بأم القرآن وبما شاء اﷲ أن تقرأ) ’’سورہ فاتحہ پڑھو اور (قرآن میں سے) جو اللہ چاہے پڑھو۔‘‘(ابوداود:۸۵۹) آپ ﷺپہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورۃ پڑھتے تھے۔ دلیل: عن عبداﷲ بن أبی قتادۃ عن أبیہ قال:کان النبی یقرأ فی الرکعتین من الظھر والعصر بفاتحۃ الکتاب،وسورۃ سورۃ (صحیح بخاری:۷۶۲،صحیح مسلم ۴۵۱) اور آخری دو رکعتوں میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ دلیل: عن أبی قتادۃ أن النبی کان یقرأ في الظھر في الأولین بأم الکتاب وسورتین وفي الرکعتین الأخریین بأم الکتاب… الخ (صحیح بخاری:۷۷۶،صحیح مسلم ۴۵۱) سکتہ آپ سورہ فاتحہ سے پہلے اور قرأت کے بعد رکوع سے پہلے سکتہ کرتے تھے۔ دلیل: قال سمرۃ:حفظت سکتتین فی الصلاۃ سکتہ إذا کبر الامام حتی یقرأ،وسکتۃ إذا فرغ من فاتحۃ الکتاب وسورۃ عند الرکوعt (ابوداود:۷۷۷، ۷۷۸) ’’سمرہ بن جندب کہتے ہیں مجھے نماز میں دو سکتے یاد ہیں ایک سکتہ وہ جب امام اللہ اکبر کہتا ہے اور قراء ت سے پہلے اور دوسرا سکتہ وہ کہ جب امام سورہ فاتحہ اور سورۃ سے فارغ ہوتا ہے۔‘‘ رکوع آپ رکوع جاتے ہوئے اللہ اکبر کہتے۔ دلیل: عن أبی ہریرۃ یقول کان رسول اﷲ… ثم یکبر حین یرکع (صحیح بخاری:۷۸۹،صحیح مسلم:۳۹۲) اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔ دلیل: أن عبد اﷲ بن عمر قال: رأیت النبی افتتح التکبیر فی الصلوۃ فرفع یدیہ حین یکبر حتی یجعلھا حذو منکبیہ وإذا کبر للرکوع فعل مثلہ (صحیح بخاری:۷۳۸) ’’عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے نبی کو دیکھا کہ انہوں نے نماز کے شروع میں تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں مونڈھوں کے برابر اٹھائے اور جب رکوع کیا تو اس طرح کیا۔‘‘ ’’آپ(عند الرکوع وبعدہ)رفع یدین کرتے پھر (اس کے بعد)تکبیر کہتے۔ دلیل: أن ابن عمر قال: کان رسول اﷲ إذا قام للصلوٰۃ رفع یدیہ حتی تکونا بحذو منکبیہ ثم کبر،فإذا أراد أن یرکع فعل مثل ذلک ’’ عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ دونوں کندھوں تک اٹھاتے پھر تکبیر کہتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اسی طرح کرتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم:۳۹۰) ملحوظہ: اگر پہلے تکبیر اور بعد میں رفع یدین کرلیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔ ابوحمیدالساعدی کہتے ہیں کہ ’’ثم یکبر فیرفع یدیہ‘‘ (ابوداود:۷۳۰) ’’پھر آپ تکبیر کہتے اور پھر رفع یدین کرتے۔‘‘ رکوع کی کیفیت آپ جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنے مضبوطی سے پکڑتے پھر اپنی کمر جھکاتے (اور برابر کرتے) دلیل: وإذا رکع أمکن یدیہ من رکبتیہ ثم ہصر ظھرہ(صحیح بخاری:۸۲۸) ’’آپ کا سرنہ تو (پیٹھ سے) اونچا ہوتا اور نہ نیچا (بلکہ برابر ہوتا تھا) دلیل: وکان إذا رکع لم یشخص رأسہ ولم یصوبہ (صحیح مسلم:۴۹۸) آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوںپر رکھتے تھے پھراعتدال (سے رکوع) کرتے نہ تو سر (بہت) جھکاتے اور نہ اسے (بہت) بلند کرتے یعنی آپ کا سر مبارک آپ کی پیٹھ کی سیدھ میں بالکل برابر ہوتا تھا۔ دلیل: ثم یرکع ویضع راحتیہ علی رکبتیہ ثم یعتدل فلا یصب رأسہ ولا یقنعv(ابوداود:۷۳۰) آپ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے گویا کہ آپ نے انہیں پکڑ رکھا ہو اور دونوں ہاتھ کمان کی ڈوری کی طرح تان کر اپنے پہلوؤں سے دور رکھے۔ دلیل: ثم رکع فوضع یدیہ علی رکبتیہ کأنہ قابض علیھما،ووتر یدیہ فتجافی عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴) رکوع کی دعا آپ رکوع میں سبحان ربي العظیم کہتے (رہتے ) تھے۔ دلیل: اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم رکع فجعل یقول )سبحان ربي العظیم) (صحیح مسلم:۷۷۲) آپ مذکورہ بالا دعا کا نماز میں پڑھنے کاحکم بھی کرتے۔ دلیل: عن عقبۃ بن عامر قال:لما نزلت{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم} قال رسول اﷲ )إجعلوھا فی رکوعکم) x (ابوداود:۸۶۹) اس کی تسبیح کی تعداد میں امام ذہبی نے اختلاف کیا ہے۔ میمون بن مہران (تابعی) اور زہری (تابعی) فرماتے ہیں کہ رکوع وسجود میں تین تسبیحات سے کم نہیں پڑھنا چاہئے (مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۲۵۰، رقم ۲۵۷۱) اس کے علاوہ آپ سے درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔ )سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ) ’’اے اللہ! جو ہمارا رب ہے، تو پاک ہے، ہم تیری تعریف کرتے ہیں الٰہی مجھے بخش دے۔‘‘ (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴ ۸ ۴ ) یہ دعا آپ کثرت سے پڑھتے تھے۔ )سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ،رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ) (صحیح مسلم:۴۸۷) ’’وہ ہر عیب سے پاک ہے وہ فرشتوں اور جبریل کا رب ہے۔‘‘ )سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا إلہَ إلَّا أَنْتَ) (صحیح مسلم:۴۸۵) ’’اے اللہ تو پاک ہے اور تیری ہی تعریف ہے۔ نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر تو ہی۔‘‘ )اَللّٰھُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ،خَشَعَ لَکَ سَمْعِيْ وَبَصَرِيْ وَمُخِّيْ وَعَظْمِيْ وَعَصَبِيْ) (صحیح مسلم:۷۷۱) ’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے رکوع کیا تیرے لئے ہی ایمان لایا اور تیرے لئے ہی فرمانبردار ہوا میری سماعت،بصارت، ہڈی اور اس کی مخ اور پٹھے (سب کے سب) تجھ سے ڈر گئے۔‘‘ ان دعاؤں میں سے کوئی دعا بھی پڑھی جاسکتی ہے، ان دعاؤں کا ایک ہی رکوع یا سجدے میں جمع کرنا اور اکٹھا پڑھنا کسی صریح دلیل سے ثابت نہیں تاہم حالت تشہد میں)ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو)(صحیح بخاری:۸۳۵)کی عام دلیل سے ان دعاؤں کا جمع کرنا بھی جائز ہے۔ واﷲ أعلم رفع الیدین بعد الرکوع جب آپ رکوع سے سراٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور)سمع اﷲ لمن حمدہ،ربنا ولک الحمد)کہتے تھے۔ دلیل: وإذا کبر للرکوع،وإذا رفع رأسہ من الرکوع رفعھما کذلک أیضا،وقالسَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) (صحیح بخاری:۷۳۵، ۷۳۶) امام،مقتدی اور منفرد سب کو سمع اﷲ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہنا چاہئے۔ربنا لک الحمد کہنا بھی صحیح اور ثابت ہے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں وارد ہے: ثم یکبر حین یرکع،ثم یقول )سمع اﷲ لمن حمدہ)حین یرفع صلبہ من الرکوع،ثم یقول وھو قائمربنا لک الحمد)(صحیح بخاری:۷۸۹) *بعض اوقات ربنا ولک الحمد جہراً کہنا بھی جائز ہے۔ دلیل: عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ سمعت أبا ھریرۃ یرفع صوتہ باللھم ربنا ولک الحمدz(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۲۴۸، رقم:۲۵۵۶) ’’میں نے ابوہریرہ کو اونچی آواز کے ساتھ اللھم ربنا ولک الحمد پڑھتے سنا۔‘‘ *اس کے علاوہ رکوع کے بعد درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں۔ )é رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمٰوَاتِ وَمِلْئَ الاَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ أَھْلَ الثَّنَائِ وَالْمَجْدِ،أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) (صحیح مسلم:۴۷۷) ’’اے ہمارے پروردگار! تیرے ہی لئے ہر طرح کی تعریف ہے۔آسمانوں اور زمین اور ہر اس چیز کے بھراؤ برابر (تیری تعریف ہے) جو تو چاہے بندے نے تیری حمد و ثنا بیان کی تو انہی کا حقدار ہے اور ہم سب تیرے بندے ہیں تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روک دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور سعادت مند کو اس کی سعادت مندی تیرے عذاب سے بچا نہیں سکی۔‘‘ * )رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًَا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ) (صحیح بخاری:۷۹۹) ’’اے ہمارے پروردگار!آپ کے لئے ہی ساری تعریف ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریف۔‘‘ رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنا رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں یا نہیں اس مسئلے میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھے جائیں۔امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں یا چھوڑ دینے چاہئیں تو انہوں نے فرمایا: أرجو أن لا یضیق ذلک إن شاء اﷲ (مسائل احمد روایۃ صالح بن احمد بن حنبل:۶۱۵) ’’مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔‘‘ سجدہ پھر آپ تکبیر(اللہ اکبر) کہہ کر (یا کہتے ہوئے) سجدے کے لئے جھکتے۔ دلیل:ثم یقول )اﷲ أکبر) حین یہوی ساجدًا( بخاری:۸۰۳،مسلم:۳۲۹) آپ نے فرمایا: )إذا سجد أحدکم فلا یبرک کما یبرک البعیر ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ) (ابوداود:۸۴۰) ’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے (بلکہ) اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے‘‘ اور آپ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔‘‘ عبداللہ بن عمر اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ(زمین پر)رکھتے تھے اور فرماتے کہ رسول اللہﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ä جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریمﷺ سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے۔ (ابوداود:۸۳۸) شریک بن عبداللہ القاضی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔ *سجدہ سات اعضاء یعنی دونوں گھٹنوں دونوں ہاتھوں اور چہرے کے اعتماد سے کرنا چاہئے۔ دلیل: آپ نے فرمایاأمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم علی الجبھۃ) وأشار بیدہ علی أنفہ،)والیدین والرکبتین وأطراف القدمین )(صحیح بخاری:۸۱۲،صحیح مسلم:۴۹۰) ’’مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے (ان سب کی طرف) اشارہ کیا کہ پیشانی،ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے۔‘‘ * آپ فرماتے تھے: )إذا سجد العبد سجد معہ سبعۃ أطراف: وجھہ وکفاہ ورکبتاہ وقدماہ) (صحیح مسلم:۴۹۱) ’’جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو سات اطراف (اعضائ) اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں چہرہ ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں۔‘‘ معلوم ہوا کہ سجدہ میں ناک پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کا زمین پر لگانا ضروری (فرض ) ہے۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں: )لا صلوۃ لمن لم یضع أنفہ علی الأرض) å(دارقطنی:۱؍۳۷۸، رقم:۱۳۰۳) ’’جو شخص (نماز میں) اپنی ناک، زمین پر نہ رکھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ * آپ سجدے میں ناک اور پیشانی زمین پر (خوب) جما کر رکھتے، اپنے بازؤں کو اپنے پہلوؤں (بغلوں سے دور کرتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر زمین) پر رکھتے تھے۔‚ثم سجد فأمکن أنفہ وجبہتہ ونحی یدیہ عن جنبیہ (ابوداود:۷۳۴) وائل بن حجر فرماتے ہیں کہ :فلما سجد وضع رأسہ بذلک المنزل من بین یدیہ (ابو داود:۷۲۶) ’’آپ نے جب سجدہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اپنے سر کو رکھا۔‘‘ * سجدے میں آپ اپنے دونوں بازؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔ دلیل: ’’ثم یھوی إلی الارض فیجافی یدیہ عن جنبیہ‘‘„ (ابوداود:۷۳۰) * آپ سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر)رکھتے نہ تو انہیں بچھا دیتے اور نہ (بہت) سمیٹ لیتے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے۔ دلیل: ’’فإذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما واستقبل باطراف أصابع رجلیہ القبلۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۸) *سجدہ میں آپ کے بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی تھی۔ دلیل: ’’عن عبد اﷲ بن مالک أن النبی کان إذا صلی فرج بین یدیہ حتی یبدو بیاض إبطیہ‘‘ (صحیح بخاری:۳۹۰،صحیح مسلم۴۹۵) *سجدہ کرتے ہوئے بازؤں کو زمین پربچھانا نہیں چاہئے۔ دلیل: آپ فرماتے تھے کہ)اعتدلوا فی السجود،ولا ینبسط أحدکم ذراعیہ انبساط الکلب )(صحیح بخاری:۸۲۲، صحیح مسلم:۴۹۳) ’’سجدے میں اعتدال کرو، کتے کی طرح بازو نہ بچھا دو۔‘‘ اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کوبھی چاہئے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔ *آپ جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کابچہ آپ کے بازؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔ دلیل: ’’عن میمونہ قالت: کان النبی إذا سجد لو شاء ت بھمۃ أن تمر بین یدیہ لمرت‘‘ (صحیح مسلم:۴۹۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے )صلوا کما رأیتمونی أصلی)کے عام حکم کے تحت عورتوں کیلئے بھی یہی حکم ہے۔ سجدے کی دعائیں سجدے میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں خوب دعا کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا: )أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فأکثروا الدعائ) (صحیح مسلم:۴۸۲) ’’بندہ اپنے رب کے قریب ترین ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو پس دعا زیادہ سے زیادہ کیا کرو۔‘‘ سجدے میں درج ذیل دعائیں پڑھنا ثابت ہے۔ )aسُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلیٰ) (صحیح مسلم:۷۷۲) ’’میرا بلند پروردگار(ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘ )bسُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي) (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم:۴۸۴) ’’اے ہمارے پروردگار! تو (ہرعیب سے) پاک ہے ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ )cسُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا اِلَہَ إلَّا أَنْتَ) (صحیح مسلم:۴۸۷) ’’اے اللہ! تو (ہرعیب سے) پاک ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے۔‘‘ )dسُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ) (صحیح مسلم:۴۸۷) ’’(الٰہی تو) نہایت پاک اور قدوس ہے، فرشتوں اور روح الامین (جبریل) کا پروردگار ہے۔‘‘ )اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِيْ کُلَّہٗ،دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ،وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ،وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ )(صحیح مسلم:۴۸۳) ’’اے اللہ میرے تمام گناہوں کو بخش دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، ماضی کے ہوں اور آئندہ کے ہوں، علانیہ اور خفیہ ہوں۔‘‘ )اَللّٰھُمّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ،وَلَکَ أَسْلَمْتُ،سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ،وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ،تَبَارَکَ اﷲُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) (صحیح مسلم :۷۷۱) ’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا میں تجھ پر ایمان لایا،تیرا فرمانبردار ہوا، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے تخلیق کیا، اسے اچھی صورت دی، اس کے کان اور آنکھ کو کھولا بہترین تخلیق کرنے والا اللہ، بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘ یہ دعا بھی نبی سے ثابت ہے: )اَللّٰھُمّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وِبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عَقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ،أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلـٰی نَفْسِکَ) (صحیح مسلم:۴۸۶) ’’ الٰہی میں غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری بخشش کی تیرے عذاب سے اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔مجھ میں طاقت نہیں کہ تعریف کر سکوں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‘‘ جو دعا باسند صحیح ثابت ہوجائے سجدے میں اس کا پڑھنا افضل ہے، رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے۔ *آپ سجدے کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کی ایڑھیاں ملادیتے تھے اور ان کی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہوتا تھا۔ دلیل: ’’قالت عائشۃ زوج النبی فقدت رسول اﷲ وکان معی علی فراش فوجدتہ ساجداً راصا عقبیہ مستقبلا باطراف أصابعہ القبلۃ‘‘… (معانی الآثار:۱؍۲۳۴، بیہقی :۲؍۱۱۶) ’’ آپ کی زوجہ محترمہ عائشہ فرماتی ہیں: میں نے ایک دن آپ کو گم پایا جب کہ آپ میرے بستر پر تھے ،پس میں نے آپ کو اس حالت میں پایا کہ آپسجدہ میں دونوں ایڑیوں کو اوپر اٹھائے ہوئے اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف کیے ہوئے تھے۔‘‘ *سجدے میں آپ اپنے دونوں قدم کھڑے رکھتے تھے۔ دلیل: عن عائشۃ قالت فقدت رسول اﷲ ﷺ لیلۃ من الفراش فالتمستہ فوقعت یدی علی بطن قدمہ،وہو فی المسجد وہما منصوبتان (صحیح مسلم:۴۸۶) ’’ عائشہ سے روایت ہے کہتی ہیں میں نے ایک رات آپ کو بستے سے غائب پایا تو ٹٹولنے پر میرا ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے تلووں کو لگا آپ اس وقت سجدہ میں تھے اور آپ کے دونوں پاؤں گڑے ہوئے تھے۔‘‘ * آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر سجدے سے اٹھتے۔ دلیل: ’’ ثم یکبر حین یرفع رأسہ‘‘ (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم :۳۹۲) *آپ اللہ اکبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پربیٹھ جاتے۔ دلیل: ’’ثم یسجد ثم یقول )اﷲ أکبر) ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا‘‘†(ابوداود:۷۳۰) * عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ’’إنما سنۃ الصلاۃ أن تنصب رجلک الیمنی وتثنی الیسری‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۷) ’’نماز میں (نبی) کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرکے بایاں پاؤں بچھا دے۔‘‘ *آپ سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ دلیل: افتتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ… وإذا کبر للرکو ع فعل مثلہ وإذا قال )سمع اللہ لمن حمدہ) ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یرفع رأسہ من السجود (صحیح بخاری:۷۳۸) ’’ نماز کے شروع میں تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے… اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو ایسا ہی کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو اسی طرح کرتے اور سجدے اور سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ایسا نہ کرتے۔‘‘ جلسہ آپ سجدے سے اٹھ کر (جلسے میں) تھوڑی دیر بیٹھتے۔ دلیل: ’’ثم رفع راسہ ھنیۃ‘‘ (صحیح بخاری:۸۱۸) * آپ اتنی دیر تک بیٹھتے کہ کوئی سمجھتا کہ آپ بھول گئے ہیں۔ دلیل: إذا رفع رأسہ من الرکوع قام حتی یقول القائل: قد نسي وبین السجدتین حتی یقول القائل قد نسي (صحیح بخاری:۸۲۱، صحیح مسلم:۴۷۲) * آپ جلسہ میں یہ دعا پڑھتے تھے: (رَبِّ اغْفِرْلِيْ،رَبِّ اغْفِرْلِي) ‡(ابوداود:۸۷۴) جلسہ میں تشہد کی طرح اشارہ کرنا ثابت نہیں۔ˆ * آپ تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (دوسرا) سجدہ کرتے ۔ دلیل: (ثم یکبر حین یسجد ) (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم:۳۹۲) * آپ جب طاق (پہلی یا تیسری) رکعت میں دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے تھے۔ دلیل: فإذا کان فی وتر من صلاتہ لم ینھض حتی یستوي قاعدًا‘‘ ’’پس جب آپ نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تواچھی طرح بیٹھے بغیر نہ اٹھتے تھے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۳) * دوسرے سجدے سے آپ جب اٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے حتی کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آجاتی۔ دلیل: ثم یسجد ثم یقول: (اﷲ أکبر) ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا حتی یرجع کل عظم إلی موضعہ‰ (ابوداود:۷۳۰) *اور اس کے علاوہ نبی کا حکم بھی اسی عمل ہی کا ہے۔ آپ ایک آدمی کو نماز سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں: (ثم اسجد حتی تطمئن ساجدا ثم ارفع حتی تطمئن جالسا )(صحیح بخاری:۶۲۵۳) ’’ پھر تو سجدہ کر حتی کہ اچھی طرح سجدہ کر لے پھر سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جائے۔‘‘ ملحوظہ: سجدہ کرتے وقت، سجدے سے سراٹھاتے وقت اور سجدوں کے درمیان رفع یدین کرنا ثابت نہیں۔ ایک رکعت مکمل ہوگئی اب آپ وتر پڑھ رہے ہیں تو پھر تشہد درود اور دعائیں (جن کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر سلام پھیر لیں۔ دوسری رکعت * آپ زمین پر (دونوں ہاتھ رکھ کر) اعتماد کرتے ہوئے (دوسری رکعت کے لئے) اٹھ کھڑے ہوتے۔ دلیل: عن أیوب عن أبی قلابۃ قال: جاء نا مالک بن الحویرث فصلی بنا فی مسجدنا ہذا فقال:إنی لأصلی بکم وما أرید الصلاۃ التی أرید أن أریکم کیف رأیت رسول اﷲ یصلی قال أیوب فقلت لأبی قلابۃ:وکیف کانت صلاتہ؟ قال:مثل صلاۃ شیخنا ھذا یعنی: عمرو بن سلمۃ قال أیوب: وکان ذلک الشیخ یتم التکبیر وإذا رفع رأسہ عن السجدۃ الثانیۃ جلس واعتمد علی الارض ثم قام ’’ ایوب سے روایت ہے کہ ابی قلابہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس مالک بن حویرث تشریف لائے۔انہوں نے اس مسجد میں ہمیںنماز پڑھائی اور فرمانے لگے کہ میرا ارادہ نماز پڑھنے کا نہیں تھا،لیکن صرف اس خاطر کہ تمہیں دکھاؤں کہ میں نے کس طرح نبی کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ایوب کہتے ہیں میں نے ابوقلابہ سے کہا ان(مالک بن حویرث)کی نماز کی کیا حالت تھی۔ ابوقلابہ کہنے لگے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح ایوب سنتے ہیں وہ شیخ تکبیر مکمل کرتے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر(ہاتھوں کی) ٹیک لگاتے پھر کھڑے ہوتے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۴) * ابن عمر کا عمل بھی اسی پر تھا۔ ازرق بن قیس سے روایت ہے کہ میں نے (عبداللہ) بن عمر کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں پراعتماد کرکے کھڑے ہوئے۔‹(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۳۹۵، رقم:۳۹۹۶) * آپ جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو الحمدللہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے اور سکتہ نہ کرتے تھے۔ دلیل: إذا نھض من الرکعۃ الثانیۃ استفتح القراء ۃ بـ {الحمد ﷲ رب العالمین}ولم یسکت(صحیح مسلم:۵۹۹) سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ذکر گزر چکا۔ {فَإذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاْسَتِعْذْ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ} (النحل:۹۸) کی رو سے بسم اللہ سے پہلے أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم پڑھنا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔ باقی تفصیل پہلی رکعت کے بیان میں گزر چکی ہے۔ آخری تشہد میں ہاتھوں کی حالت * دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد (تشہد کے لئے) بیٹھ جانے کے بعد آپ اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے تھے۔ دلیل: إذا قعد فی الصلاۃ …وضع یدہ الیسریٰ علی رکبتہ الیسریٰ ووضع یدہ الیمنی علی فخذہ الیمنی (صحیح مسلم:۵۷۹) * آپ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ترپن کا عدد (یعنی حلقہ) بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ (یعنی اشارہ کرتے ہوئے دعا کرتے) دلیل: وعقد ثلاثۃ وخمسین وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰) ïیہ بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملاتے (یعنی حلقہ بناتے) اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ دلیل: وأشار بإصبعہ السبابۃ ووضع إبھامہ علی أصبعہ الوسطی(صحیح مسلم:۵۷۹) لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔ *آپ اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھتے تھے۔ دلیل: وحد مرفقہ الأیمن علی فخذہ الیمنی(ابوداود:۷۲۶) * آپ اپنی دونوں ذراعیںñاپنی رانوں پر رکھتے تھے۔ دلیل: وضع ذراعیہ علی فخذیہò(نسائی :۱۲۶۵) * آپ جب تشہد کے لئے بیٹھتے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ دلیل: کان إذا قعد فی التشہد … وأشار بالسبابۃ (صحیح مسلم:۵۸۰) * آپ انگلی اٹھا دیتے اس کے ساتھ تشہد میںدعا کرتے تھے۔ دلیل: قد حلق الابھام والوسطی،ورفع التي تلیھما یدعو بھا في التشھد(ابن ماجہ:۹۱۲) * آپ شہادت والی انگلی کو تھوڑا ساجھکا دیتے۔ دلیل: عن نمیر الخزاعي قال:رأیت النبی واضعاً ذراعہ الیمنی علی فخذہ الیمنی رافعا اصبعہ السبابۃ قد حناھا شیئا(ابوداود:۹۹۱) ’’ نمیز خزاعی کہتے ہیں میں نے نبی کو (ـتشہد میں) دیکھا کہ آپ اپنی دائیں بازو کو دائیں ران پر رکھا ہوا تھا او راس ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو تھوڑا سا خمیدہ کر کے اٹھایا ہوا تھا۔‘‘ * آپ اپنی شہادت والی انگلی کو حرکت(دیتے) رہتے تھے۔ دلیل: ثم رفعہ اصبعہ فرأیتہ یحرکھا یدعوبھا‘(نسائی:۱۲۶۹) ٭ آپ اپنی شہادت کی انگلی کو قبلہ رخ کرتے اور اسی کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔ دلیل: وأشار بأصبعہ التي تلي الإبھام فی القبلۃ ورمی ببصرہ إلیھا أونحوھا ثم قال:ہکذا رأیت رسول اﷲ ! ’ (نسائی:۱۱۶۱) *آپ دو رکعتوں کے بعد والے (یعنی پہلے) تشہد اور چار رکعتوں کے بعد والے (یعنی آخری) تشہد دونوں تشہدوں میں یہ اشارہ کرتے تھے۔ دلیل: کان رسول اﷲ إذا جلس فی الثنتین أو في الأربع یضع یدیہ علی رکبتیہ ثم أشار بأصبعہ“ (نسائی:۱۱۶۲) لا الہ پر انگلی اٹھانا اور الاﷲ پررکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ احادیث کے عموم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک حلقہ بنا کر شہادت والی انگلی اٹھائی جائے۔ جیسا کہ ترمذی” اور نسائی• کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو دیکھا جو (تشہد میں) دو انگلیوں سے اشارہ کررہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’أحّد أحّد‘‘ یعنی صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شروع تشہد سے لے کر آخر تک شہادت والی انگلی اٹھائی رکھنی چاہئے۔ * آپ تشہد میں درج ذیل دعا (التحیات) سکھاتے تھے۔ اَلتَّحِیَّاتُ ﷲِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ،اَلسَّلَا مُ عَلَیْکَ–اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ، أشْھَدُ أنْ لَّا إلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَأَشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ(صحیح بخاری:۱۲۰۲) ’’قولی، بدنی اور مالی عبادات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ اے نبی آپ پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی، اس کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں اور ہم پر بھی اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی نازل ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘ * پھر آپ درود پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمد وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إبْرَاھِیْمَ إنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (صحیح بخاری:۳۳۷۰) ’’یااللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور اُن کی آل پر جس طرح تو نے رحمت فرمائی ابراہیم ؑ اور اُن کی آل پر۔ بے شک تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! برکت فرما محمد اور ان کی آل پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم ؑ اور ان کی آل پر۔ بلا شبہ تو تعریف والا اور بزرگی والا ہے۔‘‘ * دو رکعتیں مکمل ہوگئیں، اب اگر دو رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ الفجر) ہے تو دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیں اگر تین یا چار رکعتوں والی نماز ہے تو تکبیر کہہ کر کھڑے ہوجائیں۔ پہلے تشہد میں درود پڑھنا انتہائی بہتر اور موجب ثواب ہے، عام دلائل میں قولوا کے ساتھ اس کا حکم آیا ہے کہ ’درود پڑھو‘ اس حکم میں آخری تشہد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص پہلے تشہد میں درود نہ پڑھے اور صرف التحیات پڑھ کر ہی کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ مسند احمد—کی روایت میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے التحیات (عبدہ ورسولہ تک)سکھا کر فرمایا:’’پھر اگر نماز کے درمیان (یعنی اول تشہد) میں ہو تو (اٹھ) کھڑا ہوجائے۔‘‘ اگر دوسری رکعت پر سلام پھیرا جا رہا ہے تو تورک کرنا بہتر ہے اور نہ کرنا بھی جائز ہے۔ * پھر جب آپ دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو (اٹھتے وقت) تکبیر(اللہ اکبر) کہتے۔ دلیل: ویکبر حین یقوم من الثنتین بعد الجلوس (صحیح بخاری:۷۸۹، ۸۰۳، صحیح مسلم:۸۶۸) * اور رفع یدین کرتے۔ دلیل: وإذا قام من الرکعتین رفع یدیہ ورفع ذلک ابن عمر إلی النبی(صحیح بخاری:۷۳۹) ’’ ابن عمر جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو اپنے دو نوں ہاتھ اٹھاتے آپ نے اس طریقہ کو مرفوعا بیان کیا ہے۔‘‘ * تیسری رکعت بھی دوسری رکعت کی طرح پڑھنی چاہئے سوائے یہ کہ تیسری اور چوتھی (آخری دونوں) رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے اس کے ساتھ کوئی سورت وغیرہ نہیں ملانی چاہئے جیسا کہ ابوقتادہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری:۷۷۶) * اگر تین رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ المغرب) ہے تو تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت کی طرح تشہد اور درود پڑھ لیا جائے اور دعا (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیا جائے۔ (صحیح بخاری :۱۰۹۲) * اگر چار رکعتوں والی نماز ہے تو پھر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے۔ ( صحیح بخاری:۸۲۳) * چوتھی رکعت بھی تیسری رکعت کی طرح پڑھے یعنی صرف سورۃ فاتحہ ہی پڑھے تاہم تیسری اور چوتھی رکعتوں میںسورہ فاتحہ کے علاوہ سورت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔ دلیل: صحیح مسلم میں سعید خدری سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ’’کنا نحزر قیام رسول اﷲ فی الظھر والعصر، فحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من الظھر قدر قراء ۃ {الٓمّ تَنْزِیْل} السجدۃ وحزرنا قیامہ فی الاخریین قدر النصف من ذلک وحزرنا قیامہ فی الرکعتین الأولیین من العصر علی قدر قیامہ من الأخریین من الظھر، وفي الأخریین من العصر علی النصف من ذلک‘‘ ’’ہم ظہر اور عصر کی نماز میں رسول اللہﷺ کے قیام کا اندازہ لگاتے، ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ کے قیام کااندازہ الم تنزیل السجدہ (تین آیات) جتنا ہوتا اور آخری دو رکعتوں میں آپ کے قیام کے متعلق ہمارا اندازہ اس سورہ سے نصف پر، اسی طرح عصر کی پہلی دو رکعتوں میں ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کانصف اور آخری دو رکعتوں میں عصر کی پہلی دو کا نصف۔‘‘(صحیح مسلم:۴۵۲) *آپ چوتھی رکعت میں ’تورک‘ کرتے تھے۔ دلیل: وإذا جلس فيٍ الرکعۃ الآخرۃ قدم رجلہ الیسری ونصب الأخری وقعد علی مقعدتہ (صحیح بخاری:۸۲۸) ’’ اور جب آپ آخری رکعت میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو (دائیں پنڈلی کے نیچے سے) نکال لیتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور اپنی مقعد پر بیٹھ جاتے۔‘‘ * چوتھی رکعت مکمل کرنے کے بعد التحیات اور درود پڑھے جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ * پھر اس کے بعد جو دعا پسند ہو (عربی زبان میں) پڑھ لے۔ دلیل: آپ نے فرمایا: (ثم لیتخیر من الدعاء أعجبہ إلیہ فیدعو )(صحیح بخاری:۸۳۵) چند دعائیں درج ذیل ہیں جنہیں رسول اللہ پڑھتے یا حکم دیتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ،وَمِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ (صحیح بخاری:۱۳۷۷، صحیح مسلم:۵۸۸) ’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور آگ کے عذاب سے اور موت و حیات کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ رسول اللہﷺ اس دعا کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: صحیح مسلم ۵۹۰) لہٰذا یہ دعا تشہد میں ساری دعاؤں سے بہتر ہے طاؤس (تابعی) سے مروی ہے کہ وہ اس دعا کے بغیر نماز کے اعادے کا حکم دیتے تھے۔ (دیکھئے: مسلم: ۵۹۰) (اَللّٰھُمَّ إنِّیْ أعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَأعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَفِتْنَۃِ الْمَمَاتِ، اَللّٰھُمَّ إنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَمِ وَالْمَغْرَمِ )(صحیح بخاری: ۸۳۲) ’’یا اللہ! میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔الٰہی! میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تجھ سے موت و حیات کے فتنے سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ! میں تجھ سے گناہوں اور قرض (کے بوجھ) سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (اَللّٰھُمَّ إنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إلَّا أنْتَ، فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ، وَارْحَمْنِیْ إنَّکَ أنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) ’’یا اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کو بخشنے والا کوئی نہیں لہٰذا تو اپنی جناب سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۳۴) (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ ،وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُوَخِّرُ لَا اِلٰہَ إلاَّ أَنْتَ ) (صحیح مسلم:۷۷۱) ’’ الٰہی میرے اگلے پچھلے،خفیہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے اور جو میں زیادتی کر بیٹھا اور وہ گناہ جن کو تو جانتا ہے معاف فرما دے تو ہی(عزت میں) آگے کرنے والا اور پیچھے ہٹانے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ ان کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا جائز اور موجب ثواب ہے مثلاً آپ یہ دعا بکثرت پڑھتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ )(صحیح بخاری:۴۵۲۲) ’’اے اللہ! اے ہمارے رب ہماری دنیا وآخرت اچھی بنا دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔‘‘ سلام * دعا کے بعد آپ دائیں اور بائیں سلام پھیر دیتے تھے۔(صحیح مسلم:۵۸۲) * سلام پھیرتے ہوئے آپ کی گالوں کی سفیدی دائیں بائیں کے مقتدیوں کو نظر آتی اور سلام کے یہ الفاظ ہوتے۔ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ دلیل :روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: عن عبداﷲ (قال) أن النبی کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی یری بیاض خدہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ،السلام علیکم ورحمۃ اﷲ˜(ابوداود:۹۹۶) * سلام کے یہ الفاظ بھی نبی سے ثابت ہیں۔ دائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ اور بائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اﷲ™(ابوداود:۹۹۷) اگر امام نماز پڑھا رہا ہوتو جب وہ سلام پھیر دے تو سلام پھیرنا چاہئے۔ عتبان بن مالک فرماتے ہیں کہ’’صیلنا مع النبيٍﷺ فسلمنا حین سلم‘‘ ’’ہم نے نبی کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔‘‘ (صحیح بخاری:۸۳۸) * عبداللہ بن عمر پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرلے تو (پھر) مقتدی سلام پھیریںé لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی مقتدی سلام پھیرے، اگر امام کے ساتھ ساتھ، پیچھے پیچھے بھی سلام پھیر لیا جائے تو جائز ہے۔š |
نماز کے بعد کے اذکار
* عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ’’کنت أعرف انقضاء صلوٰۃ النبی بالتکبیر‘‘(بخاری:۸۴۲)
’’میں نبی کی نماز کا اختتام تکبیر (اللہ اکبر) سے پہچان لیتا تھا۔‘‘
* ایک روایت میں ہے کہ’’ما کنا نعرف انقضاء صلوٰۃ رسول اﷲ إلا بالتکبیر‘‘›
’’ہمیں رسول اللہ کی نماز کا ختم ہونا معلوم نہیں ہوتا تھامگر تکبیر(اللہ اکبر سننے)کے ساتھ ۔‘‘ (صحیح مسلم:۵۸۳)
* آپ نماز (پوری کرکے) ختم کرنے کے بعد تین دفعہ استغفار کرتے (أسْتَغْفِرُاﷲَ، أسْتَغْفِرُاﷲَ،أسْتَغْ� �ِرُاﷲََ) اور فرماتے( اَللّٰھُمَّ أنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالإکْرَامِ) (صحیح مسلم:۵۹۱)
’’یاالٰہی! تو السلام ہے اور تیری ہی طرف سے سلامتی ہیـ۔ اے جلال اور اکرام والے! تو بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
* آپ درج ذیل دعائیں بھی پڑھتے تھے:(لَا اِلٰہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ،وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ) (صحیح بخاری:۸۴۴، صحیح مسلم:۵۹۳)
’’اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کی بادشاہت ہے اور ساری تعریف اسی کے لئے ہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یااللہ! جس کو تو دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا کسی بزرگی والے کو اس کی بزرگی تیرے عذاب سے بچا نںیے سکتی۔‘‘
*آپ نے معاذ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے معاذ! ہرنما زکے بعد یہ ذکر کرنانہ چھوڑنا۔(اَللّٰھُمَّ !أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (ابوداود:۱۵۲۲)
’’اے ہمارے رب! اپنے ذکر ،شکر اور اچھی عبادت کے لئے میری مدد فرما۔‘‘
* آپ نے فرمایا:جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس (۳۳)دفعہ تسبیح (سبحان اللہ) تینتیس(۳۳) دفعہ حمد (الحمدللہ) اور تینتیس (۳۳) دفعہ تکبیر (اللہ اکبر) پڑھے اور آخری دفعہ ’’لَا اِلٰہَ إلَّا اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ پڑھے تو اس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ (گناہ) سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بہت زیادہ) ہوں۔(صحیح مسلم:۵۹۷)
چونتیس (۳۴)دفعہ’ اللہ اکبر‘ کہنا بھی ثابت ہے۔ (صحیح مسلم:۵۹۶)
* آپ نے عقبہ بن عامر کو حکم فرمایا کہ ہر نماز کے بعد معوذات (وہ سورتیں جو قل أعوذ سے شروع ہوتی ہیں) پڑھیں۔
دلیل : عن عقبۃ بن عامر قال:’’أمرنی رسول اللہ أن أقرأ بالمعوذات دبر کل صلاۃ‘‘÷(ابوداود:۱۵۲۳)
اور وہ معوذات یہ ہیں:
{قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَدٌ اَﷲُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا أحَدٌ} ’’آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے، اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘
{قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إذَا وَقَبَ وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِیْ الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إذَا حَسَدَ}
’’آپ کہہ دیجئے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے اور اندھیری رات کی برائی سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے اور گرہ لگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے (بھی) اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وہ حسد کرے۔‘‘
{قُلْ أعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ إلٰہِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ}
’’آپ کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں لوگوں کے مالک کی (اور) لوگوں کے معبود کی (پناہ میں) وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کی برائی سے جو لوگوں کے سینوں میںوسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ جن ہو یا انسانــ۔‘‘
*آپ نے فرمایا: (من قرأ آیۃ الکرسی فی دبر کل صلوٰۃ مکتوبۃ، لم یمنعہ من دخول الجنۃ إلا أن یموت)
’’جس نے ہر فرض نماز کے آخر میں (سلام کے بعد) آیت الکرسی پڑھی وہ شخص مرتے ہی جنت میں داخل ہوجائے گا۔‘‘
آیۃ الکرسی کے الفاظ یہ ہیں:
{اَﷲُ لَا إلٰہَ إلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَاتَاْخُذُہُ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ لَہُ مَا فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِیْ الاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إلَّا بِإذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَئٍ مِّنْ عِلْمِہِ إلَّا بِمَا شَائَ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ وَلاَ یَؤُدُہُ حِفْظُھُمَا وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ}
’’اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیںکرسکتے مگر جتنا وہ چاہے اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے وہ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت سے تھکتا اور نہ اکتاتا ہے وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘
* ابن زبیر کہتے ہیں کہ نبی ہرنما زکے بعد یہ پڑھتے تھے:لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بِاﷲِ، لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ وَلَا نَعْبُدُ إلَّا إیَّاہُ ، لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفُضْلُ وَلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ لَا إلٰہَ إلاَّ اﷲُ مُخْلَصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ (صحیح مسلم:۵۹۴)
’’کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں مگر اللہ ، اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ گناہ سے بچنے کی طاقت نہ عبادت کرنے کی قوت ہے مگراللہ کی توفیق سے، نہیں ہے کوئی معبود (برحق) مگر اللہ، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیںاور احسان بزرگی اور اچھی تعریف اسی کے لئے ہے، نہیں ہے کوئی معبود(برحق) مگر اللہ، ہم دین میں اس کے لئے خالص ہیں اگرچہ کافر لوگ اسے برا کیوں نہ سمجھیں۔‘‘
* ان کے علاوہ جو دعائیں قرآن حدیث سے ثابت ہیں ان کا پڑھنا افضل ہے چونکہ نماز اب مکمل ہوچکی ہے۔ لہٰذا اپنی زبان میں دعا مانگی جاسکتی ہے۔
نماز کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔الادب المفرد میں ہے کہ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر دعا کرتے تھے اور آخر میں اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرے پرپھیر لیتے تھے۔
1. نمازکی بعض عام کوتاہیاں
اسلامی عبادات میں یہ پہلا رکن بلکہ رکن عظیم ہے جس کی ادائیگی امیر و غریب، بوڑھے و جوان، مرد و عورت اور بیمار و تندرست سب پر یکساں فرض ہے۔ ایسی عبادت کہ جس کا حکم کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوتا۔ ایمان لانے کے بعد مسلمان سے اولین مطالبہ ہی یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔‘‘(سورۃ طہٰ:۱۴)
ہرنبی کی تعلیم میں اور ہر آسمانی شریعت میں ایمان لانے کے بعد پہلا حکم نماز ہی کا رہا ہے۔ اسی لئے شریعت ِاسلامیہ جو کہ آخری شریعت ہے، میں نماز کی شروط و اَرکان، سنن و آداب اور مفسدات ومکروہات کی وضاحت کا اس قدر اہتمام کیا گیاہے کہ اتنا التزام اور کسی عبادت میں نہیں۔چنانچہ صرف قرآن حکیم ہی میں نماز کا ذکر اکانوے دفعہ کیا گیا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نماز کا بیان شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’معلوم ہو کہ نماز اپنی عظمت ِشان اور مقتضائے عقل و فطرت ہونے کے لحاظ سے تمام عبادات میں خاص امتیاز رکھتی ہے اور خدا شناس انسانوں میں سب سے زیادہ معروف اور نفس کے تزکیہ وتربیت کے لئے سب سے زیادہ نافع ہے اور اسی لئے شریعت نے اس کی فضیلت، اس کے اوقات کی تعیین و تحدید، شروط وارکان، آداب و نوافل اور رخصتوں کے بیان کا وہ اہتمام کیا ہے کہ جو عبادات کی کسی دوسری قسم کے لئے نہیں کیا گیا اور انہیں خصوصیات و امتیازات کی بنا پر نماز کودین کا عظیم ترین شعار اور امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ :قسم دوم ، ص۳۳۹)
علاوہ ازیں نماز کی افضلیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز اور غلاموں کے متعلق تھی۔ (الرحیق المختوم از شیخ صفی الرحمن مبارکپوری: ص ۶۱۸)
ترکِ نماز :نماز کا ترک کرنا یا اس کے ادا کرنے میں غفلت برتنا بلاشبہ کبیرہ گناہوںسے ہے۔ اہل بصیرت سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ دین اسلام میں نماز کی ادائیگی کی کس قدر تاکید و تلقین کی گئی ہے اور صرف اسی پر اکتفا کرنے کی بجائے قرآن پاک نے اس ہولناک انجام اور زبردست رسوائی کا بھی خوف دلایا ہے کہ جس سے تارکین نماز دوچار ہوں گے۔چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے مگر دا ہنی طرف والے (نیک لوگ) کہ وہ باغ ہائے بہشت میں ہوں گے اور پوچھتے ہوں گے (آگ میں جلنے والے گناہگاروں سے) کہ تم دوزخ میںکیوں پڑے؟ وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔‘‘ (المدثر: ۳۸ تا۴۳)
اس کے علاوہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(بین العبد وبین الکفر ترک الصلوٰۃ) (صحیح ابوداود:۳۹۱۲)
’’بندے اور کفر کے درمیان (حد ِفاصل) نماز کا ترک کرنا ہے۔‘‘
ترکِ نماز کے متعلق اس قدر شدید تہدید و تخویف ہی کی بنا پرامام مالک اور امام شافعی کے نزدیک تارکِ صلوٰۃ کو قتل کردینا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ اور اہل کوفہ میں سے ایک جماعت اور امام مزنی کے نزدیک تارکِ صلوٰۃ کافر تو نہیں، لیکن قابل تعزیر ضرور ہے کہ اسے قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ نماز پڑھنے لگے۔(التمہید لابن عبدالبر: ۴؍۲۳۵تا۲۴۰،نیل الاوطار :۱؍۳۱۵،۳۱۶)
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ کام جو دین اسلام کے مطابق اور سنت ِنبوی سے ہم آہنگ ہے، وہی فطرت کے عین مطابق ہے اور جو کام دین کے خلاف ، سنت ِنبوی سے متضاد ہے وہ فطرت کے خلاف ہے۔اس لئے کوئی کام خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، لیکن ہے سنت کے خلاف، تو اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن اگر کوئی کام خواہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، البتہ ہے سنت کے مطابق تو اللہ کے ہاں وہ عمل پہاڑ سے زیادہ بھاری ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمارا ہر عمل سنت کے سانچے میں ڈھلاہو۔ نماز کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ہم ان چند کوتاہیوں کا تذکرہ کریں گے۔
نماز کے لیے بھاگ کر آنا
بعض لوگ نماز کے لیے مسجد کی طرف بھاگ کر آتے ہیں حالانکہ شریعت ِاسلامیہ میں ا س کی ممانعت ہے اور اسلام نے یہ سہولت دی ہے کہ جتنی نماز مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے، اسے پورا کرلو۔ ابوہریرہ سے روایت ہے : قال رسول اللہ! (إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا تأتوھا وأنتم تسعون ولکن ایتوھا وأنتم تمشون وعلیکم السکینۃ فما أدرکتم فصلوا وما فاتکم فأتموا)(صحیح بخاری:۹۰۸،صحیح ترمذی:۳۲۷)
’’آپﷺنے فرمایا کہ جب اقامت ہوجائے تو تم نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آئو بلکہ چلتے ہوئے (باوقار طریقے سے) آئو اور تم پراطمینان لازم ہے۔ سو جو ملے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے اسے (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) مکمل کرلو۔‘‘
اس حدیث میں نماز کی طرف دوڑ کر آنے کی ممانعت کا حکم عا م ہے اور وہ شخص بھی اس میں شامل ہے جسے تکبیر اولیٰ کے گزر جانے کا خوف ہو، لہٰذا کسی بھی حالت میں دوڑ کر نماز کے لیے مسجدکی طرف آنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ امام ابن عبدالبر نے بھی اسی مسلک کواختیار کیا ہے۔ (التمہید: ۲۰؍۲۳۳)
صف بندی نہ کرنا
اکثر لوگ نماز کے دوران صف میں آگے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں یعنی صف بالکل سیدھی نہیں ہوتی۔یہ بہت قبیح حرکت ہے اور آپ ﷺ نے اس کے متعلق بہت شدید وعید فرمائی ہے ۔چنانچہ نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: کان رسول اﷲ! یسوی صفوفنا حتی کأنما یسوی بھا القداح حتی رأی أنا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد یکبر فرأی رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال: ) عباد اﷲ لتسون صفوفکم أو لیخالفن اﷲ بین وجوہکم( (صحیح مسلم:۴۳۶)
’’ آپ ﷺ ہماری صفیں اس طرح سے برابر (سیدھی) کیا کرتے تھے کہ گویا تیر بھی ان صفوں سے سیدھا کیا جاسکتا تھا۔ یہاں تک کہ ہم بھی آپ ﷺ سے (صفوں کے برابر کرنے کی اہمیت) سمجھ گئے۔ ایک دن آپ ﷺ (اپنے حجرہ سے) تشریف لائے اورنماز کے لئے کھڑے ہوگئے اور قریب تھے کہ تکبیر تحریمہ کہتے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے کچھ نکلا ہوا آپ ﷺ نے دیکھ لیا۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اے اللہ کے بندو! اپنی صفیں سیدھی کرلو وگرنہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
اکثر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کرنہیں کھڑے ہوتے جس کی وجہ سے درمیان میں خلا پیدا ہوجاتا ہے اور ا س خلا کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا ہے: (رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوا بالأعناق فوالذی نفسی بیدہ إنی لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنہا الحذف) (صحیح ابو داود:۶۲۱)
’’اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو( آپس میں خوب مل کرکھڑے ہو) اور صفوں کوقریب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور آجائے) نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میںتم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو بلکہ ہموار جگہ پر کھڑا ہو)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتاہوں۔‘‘
نیت کا زبان سے کرنا
جملہ اعمال کاانحصار نیت پر ہے جس کی تائید آپ 1 کی اس حدیث سے ہوتی ہے:( إنما الأعمال بالنیات وإنما لکل امرئ ما نوی) (صحیح بخاری:۱)
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہرمرد (وعورت) کے لئے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔‘‘
اس لئے تمام اعمال میں اور بالخصوص نماز میں نیت کرنا ضروری ہے اس بات کی تعیین کے ساتھ کہ نماز ظہر کی ہے یا عصر کی یا کوئی اور، لیکن اکثر لوگ نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرتے ہیں جیسے ’’ا س امام کے پیچھے میں نماز پڑھ رہا ہوں، اتنی اتنی رکعات فلاں نماز کی وغیرہ‘‘ یہ طریقہ درست نہیں،کیونکہ نیت دل سے ارادہ کرنے کا نام ہے۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ:۱؍۲۰۹) اسی بناپر اکثر علما نے زبان کے ساتھ نیت کرنے کو بدعت شمار کیا ہے کیونکہ اس کا کرنا نبی اقدس1 اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں اور نہ ہی تابعین و ائمہ اربعہ نے اسے مستحب قرار دیاہے جیسا کہ ملا علی قاری حنفی نے حافظ ابن قیم کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔
نماز میں ٹخنے ڈھانپنا
دورانِ نماز دونوں ٹخنوں پر کپڑا لٹکانایعنی ٹخنوں کا چھپ جانا ایسا معاملہ ہے کہ جسے ہم روزمرہ زندگی میں عام دیکھتے رہتے ہیں۔ نمازیوں کی اکثریت اس بات کا التزام نہیں کرتی کہ نماز میں ٹخنوں پر سے کپڑا ہٹا ہوا ہونا چاہئے۔اگرچہ بالخصوص دورانِ نماز ٹخنوں کے ننگے کرنے کے متعلق کوئی صحیح روایت وارد نہیں ہوئی، لیکن عام زندگی میںٹخنوں کو چھپانے کے متعلق آپ1 نے بہت شدت سے وعید فرمائی ہے۔ ابوہریرہ سے روایت ہے:قال النبی!: (ما أسفل من الکعبین من الإزار ففی النار)
’’آپ 1 نے فرمایا جو کپڑا ٹخنے سے نیچے ہوگا، وہ (اپنے پہننے والے کو ) دوزخ میں لے جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری:۵۷۸۷)
جب عام زندگی میں اس قدر سخت تنبیہ ہے تو نماز میں تو بدرجہ اولیٰ ا س کاخیال رکھنا چاہیے۔ بہرکیف اس کی نماز ہوجائے گی، یہی مسلک سعودی عرب کے مفتی ا عظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : صلاۃ المسبل صحیحۃ ولکنہ آثم (مجموعہ فتاویٰ : ۲؍۱۹۳)
’’نماز میں کپڑا لٹکانے والے کی نماز تو ہوجائے گی لیکن وہ گناہ گار ہوگا۔‘‘(صفۃ صلاۃ النبی 1 از البانی : ص ۸۹)
آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا
قرآن حکیم میں صرف نماز کی فرضیت وغیرہ کا بیان ہے، احکام کا تذکرہ نہیں۔ لہٰذانماز کی ادائیگی کے لئے ہم سو فیصدی حدیث ِنبوی کے محتاج ہیں۔ اس لئے جو بات آپ ﷺ سے ثابت نہیں،اس سے ہمیں بھی احتیاط لازم ہے۔انہی امور میں آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا بھی شامل ہے۔ معلوم نہیںا س سے لوگ کون سے خشوع کے حصول کو ممکن بناتے ہیں حالانکہ آپﷺ سے بڑھ کر کون خشوع کرنے والا ہوگا؟ جب نبی ﷺہی سے ایسا کرنا ثابت نہیں تو اس سے لازماً پرہیز کرنا چاہئے۔
البتہ ان حالات میں فقہا نے آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے جب نمازی کے پاس غیر ضروری حرکات و سکنات ا س کی نماز میں خلل انداز ہوں۔ یہ خیال کہ نماز میں آنکھیںبند کرنے کا سبب خیالات و وساوس کا آنا ہے، بے بنیاد ہے کیونکہ اگر خیالات غیر اختیاری ہوں تو ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مؤاخذہ نہیں۔ اس لئے وہ نماز جو آنکھیں کھول کر اتباعِ سنت میں پڑھی جارہی ہے اور اس میں غیر اختیاری خیالات بھی آرہے ہیں، اس نماز سے بدرجہا افضل ہے جو آنکھیں بند کرکے پڑھی جارہی ہے اور اس میں خیالات نہیں آرہے۔ اس لئے کہ پہلی نماز نبی کریم ﷺ کی اتباع میں اد کی جارہی ہے جب کہ دوسری نماز اتباعِ رسول ﷺ میں نہیں ہے۔صفۃ صلاۃ النبی ﷺ از البانی : ص ۸۹)
مولانا محمد تقی عثمانی کا میلان بھی اسی جانب ہے۔ (دیکھئے ’بدعت؛ ایک سنگین گناہ‘ :ص ۲۳تا۲۶)
نماز باجماعت کے ہوتے ہوئے نوافل و سنن کی ادائیگی
اس مسئلے سے اکثر لوگوں کو واسطہ پڑتا ہے، اسی لئے ہم مساجد میں کثرت سے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت ہوچکی ہوتی ہے، اس کے باوجود لوگ نوافل و سنن بالخصوص فجر کی دو سنتوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ ا س مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر فقہا نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ہم مختصراً اسے بیان کرتے ہیں۔ اقامت کے بعد نوافل و سنن کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں :
وہ لوگ جو نوافل و سنن (سنتیں چاہے فجر کی ہوں یا عصر کی ) پڑھ رہے ہوں اور نماز باجماعت کی اقامت کہہ دی جائے تو اس صورت میں نمازی جس حالت (قیام، رکوع یا سجدہ) میں ہو، فورا ً اپنی نماز کوسلام پھیر کر ختم کرے اور امام کے ساتھ نماز باجماعت میں شامل ہو۔ اس کی دلیل نبی اکرم ﷺکی یہ حدیث ہے: عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ!: (إذا أقیمت الصلوٰۃفلا صلاۃ إلا المکتوبۃ)’’ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جب (فرض) نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو پھراس کے سوا اور کوئی نماز نہیں۔‘‘ صحیح مسلم :۷۱۰)
شیخ ابن باز اور مولانا عبیداللہ رحمانی کا یہی مسلک ہے۔(فتاویٰ : ۴؍۳۷۶ و مرعاۃ المفاتیح: ۳؍۵۰۱)
وہ لوگ جوفجر کی پہلی دو سنتیں نہ پڑھ سکے ہوں اور جب وہ مسجد میں داخل ہوں تو نماز کی اقامت کہی جاچکی ہو، ایسی حالت میں بھی وہ امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوں۔ اس کی دلیل بھی مندرجہ بالا سطور میں ذکر کی گئی حدیث ہی ہے اور نمازِفجر کی ادائیگی کے بعد اگر وہ سنتوں کی قضا کرنا چاہیں تو انہیں فرائض کے فوراً بعد پڑھ لیں اور اگر ممکن نہ ہو تو طلوعِ آفتاب کے بعد پڑھ لیں۔ امام شافعی، ابن حزم اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔
عمر بن خطاب سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ اس شخص کو مارتے تھے جو اپنی انفرادی نماز میں مشغول ہوتا تھا اور اقامت ہوچکی ہوتی تھی۔(مرعاۃ المفاتیح: ۳؍۴۹۵)
سگریٹ نوشی کے بعد مسجدمیں آنا
اسلام نے اشیائِ خوردونوش میں سے ہر اس چیز کے استعمال کی ممانعت کی ہے جس کے اثرات نوعِ انسانی کے لئے مفید نہ ہوں۔ چنانچہ اسلام کی حرام کردہ اشیاے خوردونوش میں موجود نقصانات کی تحقیق بخوبی ہوچکی ہے جس کا تفصیلی ذکر علامہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب الحلال والحرام في الاسلام میں کیا ہے۔ بلاشک و شبہ انہی ممنوع اشیا میں عصر حاضر کی ایک نئی ایجاد ’سگریٹ‘ ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ کینسر کا باعث ہونے کے علاوہ ایک سگریٹ پینا گیارہ منٹ زندگی کو کم کردیتا ہے۔ یہ اور ان جیسی دوسری وجوہات ہی کی بنا پر علماے عرب کا اس کی حرمت پراتفاق ہے، جن میں شیخ عبدالعزیز بن باز (سابق مفتی اعظم سعودی عرب) اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی وغیرہ شامل ہیں۔ مسلمانوں کا اس نقصان دہ شے کو بے دریغ استعمال کرنا ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔
اس کے استعمال پر مستزاد یہ کہ لوگ سگریٹ نوشی کے فوراً بعد مسجد میں نماز کے لئے آجاتے ہیں اور ان کے منہ سے ان کی بدبو خارج ہورہی ہوتی ہے۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے : أن النبی! قال فی غزوۃ خیبر: (من أکل من ھذہ الشجرۃ یعنی الثوم فلا یقربن مسجدنا) (صحیح بخاری:۸۵۳)
’’آپ ﷺ نے غزوئہ خیبر میں فرمایا کہ جو شخص اس درخت یعنی لہسن میں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے۔‘‘
دوسری حدیث جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ أن النبی ! قال: (من أکل ثوما أوبصلا فلیعتزلنا أو فلیعتزل مسجدنا ولیقعد فی بیتہ) (صحیح بخاری:۷۳۵۹)
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ جو شخص لہسن یا پیاز کھائے، وہ ہم سے یا ہماری مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر بیٹھا رہے۔‘‘ (وہیں نماز پڑھ لے)
درحقیقت مندرجہ بالا احادیث سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کی و جہ سے نمازیوں اور مسجد میں موجود فرشتوں کو تکلیف پہنچتی ہو، کھاکر مسجد میں آنا منع ہے۔
اگر مبالغے پرمحمول نہ کیا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ (کچے) لہسن اور پیاز کی بدبو سگریٹ کی بدبو سے کئی گنا کم ہے۔ لہسن اور پیاز کی بدبو تو وقتی ہوتی ہے جبکہ سگریٹ کی بدبو مستقل ہوتی ہے جس کا تجربہ کسی سگریٹ نوش کے پاس بیٹھنے والے کو بآسانی ہوسکتا ہے جبکہ اسے سگریٹ پئے کافی گھنٹے گزر چکے ہوں۔ چنانچہ اوّل تو ہر شخص سگریٹ پینے سے بچے، وگرنہ مسجد میں آتے وقت ایسا انتظام کرے کہ اس کا منہ سگریٹ کی بدبو سے بالکل پاک ہو۔ معروف سعودی مفتی ڈاکٹر صالح بن غانم سدلان کی بھی یہی رائے ہے۔ (صلاۃ الجماعۃ: ص ۳۸ )
لہسن اور پیاز کے متعلق مندرجہ بالااحادیث سے کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ ان کا کھانا حرام ہے ۔ یہ بالکل حلال ہیں، ہاں چند مخصوص حالات میں ان کے کھانے کی ممانعت ہے یعنی مسجد جانے سے قبل جیساکہ ذکر ہوا۔
1. دیگر نمازیں
نمازِ جمعہ
جمعہ کی نماز کی فرضیت اسی طرح ہے جس طرح کہ نماز پنجگانہ کی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إذَا نُوْدِیَ لِلصَّلـٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إلـٰی ذِکْرِاﷲِ وَذَرُوْا الْبَیْعَ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ إنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} (الجمعۃ:۶۲)
’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن تمہیں (جمعہ کے لئے) پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور کاروبار چھوڑدو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘
آپ نے فرمایا: (لینتہین أقوام عن ودعھم الجمعات أو لیختمن اﷲ علی قلوبہم ثم لیکونن من الغافلین ) (صحیح مسلم:۸۶۵)
’’لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آجائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ضرور ان کے دلوں پرمہر لگا دے گا پھر وہ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔‘‘طریقہ
جمعہ کی نماز دو رکعت ہے اور اس سے پہلے کھڑے ہوکر دوخطبے اور ان کے درمیان میں خطیب تھوڑی دیر کے لئے بیٹھتا ہے اور ان دونوں خطبوں میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے۔
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ، کہتے ہیں : کان النبی! یخطب خطبتین یقعد بینھما (صحیح بخاری :۹۲۸)
’’آپ دو خطبے دیتے اور ان کے درمیان (تھوڑی دیر کے لئے) بیٹھ جاتے۔‘‘
دوسرے خطبے کے بعد دو رکعت فرض پڑھے جاتے ہیں اور یہ نماز ظہر کے قائم مقام ہے۔
نماز تسبیح
یہ نماز کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہئے:
عباس کو نبی نے فرمایا:
(إن استطعت أن تصلیھا فی کل یوم مرۃ فافعل فإن لم تفعل ففي کل جمعۃمرۃ فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ فإن لم تفعل ففي کل سنۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ)
’’اگر تو روزانہ ایک دفعہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے تو ایسا کر، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو جمعہ میں ایک مرتبہ پڑھ لے اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو مہینہ میں ایک دفعہ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ۔‘‘ (صحیح ابوداود:۱۱۵۲)
طریقہ نماز
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے عباس سے فرمایا: (یا عباس یا عماہ ألا أعطیک ألا أمنحک ألا أحبوک ألا أفعل بک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک أولہ وآخرہ قدیمہ وحدیثہ خطأہ وعمدہ صغیرہ وکبیرہ سرہ وعلانیتہ عشر خصال أن تصلی أربع رکعات تقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ فإذا فرغت من القراء ۃ فی أول رکعۃ وأنت قائم قلت: سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلـٰہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ خمس عشرۃ مرۃ ثم ترکع فتقولھا وأنت راکع عشرا ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولھا عشرا ثم تھوی ساجدا فتقولھا وأنت ساجد عشرا ثم ترفع رأسک من السجود فتقولھا عشرا ثم تسجد فتقولھا عشرا ثم ترفع رأسک فتقولھا عشرا فذلک خمس وسبعون فی کل رکعۃ تفعل ذلک فی أربع رکعات (صحیح ابو داود:۱۱۵۲)
’’اے (میرے چچا)عباس !میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کچھ ہدیہ نہ کروں؟ میں آپ کو دس خصلتوں والا نہ کردوں کہ جب آپ یہ عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے پرانے اور نئے غلطی سے یا عمداً ، چھوٹے یا بڑے پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے تو آپ چار رکعات اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ تلاوت کریں اور جب آپ قراء ت سے فارغ ہوں تو قیام کی حالت میں ہی یہ کلمات پندرہ مرتبہ ادا کریں سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ پھر آپ رکوع میں چلے جائیں اور رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہی کلمات کہیں پھر اپنا سر رکوع سے اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات دہرائیں پھر سجدہ میں جائیں اور اس میں یہی کلمات دس مرتبہ ادا کریں پھر سجدہ سے سراٹھائیں اور (جلسہ میں) دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھرسجدہ میں جائیں اور دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھر سر اٹھائیں اور دس مرتبہ پھر یہ کلمات دہرائیں ہر رکعت میں، ان تسبیحات کی تعداد ۷۵ ہوگی ہر رکعت میں آپ اسی طرح کریںاس طرح یہ چار رکعات ہیں۔‘‘
اور اس کا وقت چاشت کا وقت ہے عبداللہ بن بسر لوگوں کے ساتھ نماز عیدالفطر یا اضحی کے لئے نکلے اور امام کے تاخیر کرنے کو اجنبی جانا اور فرمایا :إنا کنا قد فرغنا ساعتنا ھذہ ’’ہم اس وقت تو نماز سے فارغ ہوجاتے تھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ یہ وقت چاشت کا وقت تھا۔ (صحیح ابوداود:۱۰۰۵)
یہ نماز کم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھنی چاہئے:
عباس کو نبی نے فرمایا:
(إن استطعت أن تصلیھا فی کل یوم مرۃ فافعل فإن لم تفعل ففي کل جمعۃمرۃ فإن لم تفعل ففي کل شھر مرۃ فإن لم تفعل ففي کل سنۃ مرۃ فإن لم تفعل ففي عمرک مرۃ)
’’اگر تو روزانہ ایک دفعہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے تو ایسا کر، اگر ایسا نہیں کرسکتا تو جمعہ میں ایک مرتبہ پڑھ لے اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو مہینہ میں ایک دفعہ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اور اگر اس کی ہمت بھی نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھ۔‘‘ (صحیح ابوداود:۱۱۵۲)
طریقہ نماز
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آپ نے عباس سے فرمایا: (یا عباس یا عماہ ألا أعطیک ألا أمنحک ألا أحبوک ألا أفعل بک عشر خصال إذا أنت فعلت ذلک غفراﷲ لک ذنبک أولہ وآخرہ قدیمہ وحدیثہ خطأہ وعمدہ صغیرہ وکبیرہ سرہ وعلانیتہ عشر خصال أن تصلی أربع رکعات تقرأ فی کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ فإذا فرغت من القراء ۃ فی أول رکعۃ وأنت قائم قلت: سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلـٰہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ خمس عشرۃ مرۃ ثم ترکع فتقولھا وأنت راکع عشرا ثم ترفع رأسک من الرکوع فتقولھا عشرا ثم تھوی ساجدا فتقولھا وأنت ساجد عشرا ثم ترفع رأسک من السجود فتقولھا عشرا ثم تسجد فتقولھا عشرا ثم ترفع رأسک فتقولھا عشرا فذلک خمس وسبعون فی کل رکعۃ تفعل ذلک فی أربع رکعات (صحیح ابو داود:۱۱۵۲)
’’اے (میرے چچا)عباس !میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کچھ ہدیہ نہ کروں؟ میں آپ کو دس خصلتوں والا نہ کردوں کہ جب آپ یہ عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے پرانے اور نئے غلطی سے یا عمداً ، چھوٹے یا بڑے پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما دے تو آپ چار رکعات اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ تلاوت کریں اور جب آپ قراء ت سے فارغ ہوں تو قیام کی حالت میں ہی یہ کلمات پندرہ مرتبہ ادا کریں سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَاإِلہَ إلَّا اﷲُ وَاﷲُ أکْبَرُ پھر آپ رکوع میں چلے جائیں اور رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہی کلمات کہیں پھر اپنا سر رکوع سے اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات دہرائیں پھر سجدہ میں جائیں اور اس میں یہی کلمات دس مرتبہ ادا کریں پھر سجدہ سے سراٹھائیں اور (جلسہ میں) دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھرسجدہ میں جائیں اور دس مرتبہ یہ کلمات دہرائیں پھر سر اٹھائیں اور دس مرتبہ پھر یہ کلمات دہرائیں ہر رکعت میں، ان تسبیحات کی تعداد ۷۵ ہوگی ہر رکعت میں آپ اسی طرح کریںاس طرح یہ چار رکعات ہیں۔‘‘
اور اس کا وقت چاشت کا وقت ہے عبداللہ بن بسر لوگوں کے ساتھ نماز عیدالفطر یا اضحی کے لئے نکلے اور امام کے تاخیر کرنے کو اجنبی جانا اور فرمایا :إنا کنا قد فرغنا ساعتنا ھذہ ’’ہم اس وقت تو نماز سے فارغ ہوجاتے تھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ یہ وقت چاشت کا وقت تھا۔ (صحیح ابوداود:۱۰۰۵)
نماز عیدین
عیدکی نماز آبادی سے نکل کر پڑھنی چاہئے۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے : کان النبی یخرج یوم الفطر والاضحی إلی المصلی(صحیح بخاری:۹۵۶)
’’ نبی نماز عید الفطر اور اضحی کے لیے عید گاہ (آبادی سے باہر) کی طرف نکلتے تھے۔‘‘
عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز کا ایک ہی طریقہ ہے۔ ان دونوں نمازوں کے لئے اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔
جابر بن سمرۃ کہتے ہیں: صلیت مع رسول اﷲ! العیدین غیر مرۃ ولا مرتین بغیر أذان ولا إقامۃ (صحیح مسلم:۸۸۷)
’’میں نے نبی کے ساتھ کئی مرتبہ نماز عید بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی۔‘‘
عبداللہ بن عباس اور جابر کہتے ہیں: لم یکن یؤذن یوم الفطر ولا یوم الاضحی (صحیح مسلم:۸۸۶)
’’یوم الفطر اورالا ضحی کی نماز کے لئے اذان نہیں کہی جاتی تھی۔‘‘
نماز عید دو رکعتیں ہیں اور یہ رکعتیں خطبہ سے پہلے ادا کی جاتی ہیں۔
جابر بن عبد اللہ سے روایت کہ: إن النبی قام یوم الفطر فصلی فبدأ بالصلاۃ قبل الخطبۃ (صحیح مسلم:۸۸۵)
’’آپ عیدالفطر کے دن کھڑے ہوئے اور خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی ۔‘‘
پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریںہیں۔
عائشہ فرماتی ہیں : أن رسول اﷲ کان یکبر فی الفطر والأضحی فی الأولی سبع تکبیرات وفی الثانیۃ خمسا
’’آپ عیدالفطر اور الضحیٰ میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے۔‘‘(صحیح ابوداود:۱۰۱۸)
ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا چاہئے۔
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: ویرفعھما فی کل رکعۃ وتکبیرۃ کبرہا قبل الرکوع(مسنداحمد:۲؍۱۳۴)
’’آپ رکوع سے پہلے ہر رکعت میں تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے۔‘‘
عیدین کی نماز میں مسنون قراء ت یہ ہے۔
عمر بن خطاب کہتے ہیں: کان یقرأ فیہا بق والقرآن المجید واقتربت الساعۃ وانشق القمر(صحیح مسلم:۸۹۱)
’’ آپ اس میں ق ٓوالقرآن المجید اور اقتربت الساعۃ وانشق القمر کی تلاوت کرتے تھے۔‘‘
نعمان بن بشیر سے روایت ہے :کان رسول اﷲ ﷺیقرأ فی العیدان وفيٍ الجمعۃبسبح اسم ربک الأعلی وہل أتاک حدیث الغاشیۃ
’’ آپ عیدین اور جمعہ میں سبح اسم ربک الاعلی اورہل أتاک حدیث الغاشیۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم:۸۷۸)
دو رکعت سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں۔
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: أن النبی! خرج یوم الفطر فصلی رکعتین لم یصل قبلھا ولا بعدھا (صحیح بخاری:۹۸۹)
’’نبی عیدالفطر کے دن نکلے پس انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اس سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہ پڑھی۔‘‘
نماز کے بعد کھڑے ہوکر ایک ہی خطبہ دیا جاتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے ۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آپ نماز سے فارغ ہوتے :ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس،والناس جلوس علی صفوفھم فیعظہم ویوصیھم ویأمرھم (صحیح بخاری:۹۵۶)
’’پھر لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے جبکہ لوگ اپنی صفوں میںبیٹھے رہتے اور آپ ان کو نصیحت و وصیت اور احکام فرماتے۔‘‘
ملحوظہ: عذر کی بنا پر نماز عیدین مسجد وغیرہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ عمر کے زمانہ میں بارش ہوئی اور لوگ عیدگاہ جانے سے رُک گئے تو عمر نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور نماز عید پڑھائی پھرمنبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:یایھا الناس أن رسول اﷲ کان یخرج بالناس إلی المصلی یصلی بھم لأنہ أرفق بھم وأوسع علیھم وأن المسجد کان لا یسعھم قال فإذا کان ھذا المطر فالمسجد أرفق
’’ اے لوگو! بے شک رسول اللہ لوگوں کو عیدگاہ کی طرف نکالتے اور انہیں نماز پڑھاتے، کیونکہ یہ ان کے لئے مناسب اور آسان تھا اور مسجد اتنی وسعت نہیں رکھتی تھی اور جب بارش ہو تو مسجد زیادہ مناسب ہے۔‘‘(بیہقی:۳؍۳۱۰)
اگر عید کا دن جمعہ کا ہو تو جمعہ پڑھنے میں رخصت ہے۔ معاویہ نے زید بن ارقم سے دو عیدوں کے جمع ہونے کے وقت نماز کے فعل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : صلی العید ثم رخص فی الجمعۃ فقال: (من شاء أن یصلی فلیصل)’’عید کی نماز پڑھی اور جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا جو نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے۔‘‘ (صحیح ابوداود:۹۴۵)
عیدکی نماز آبادی سے نکل کر پڑھنی چاہئے۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے : کان النبی یخرج یوم الفطر والاضحی إلی المصلی(صحیح بخاری:۹۵۶)
’’ نبی نماز عید الفطر اور اضحی کے لیے عید گاہ (آبادی سے باہر) کی طرف نکلتے تھے۔‘‘
عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نماز کا ایک ہی طریقہ ہے۔ ان دونوں نمازوں کے لئے اذان اور اقامت نہیں ہوتی۔
جابر بن سمرۃ کہتے ہیں: صلیت مع رسول اﷲ! العیدین غیر مرۃ ولا مرتین بغیر أذان ولا إقامۃ (صحیح مسلم:۸۸۷)
’’میں نے نبی کے ساتھ کئی مرتبہ نماز عید بغیر اذان اور اقامت کے پڑھی۔‘‘
عبداللہ بن عباس اور جابر کہتے ہیں: لم یکن یؤذن یوم الفطر ولا یوم الاضحی (صحیح مسلم:۸۸۶)
’’یوم الفطر اورالا ضحی کی نماز کے لئے اذان نہیں کہی جاتی تھی۔‘‘
نماز عید دو رکعتیں ہیں اور یہ رکعتیں خطبہ سے پہلے ادا کی جاتی ہیں۔
جابر بن عبد اللہ سے روایت کہ: إن النبی قام یوم الفطر فصلی فبدأ بالصلاۃ قبل الخطبۃ (صحیح مسلم:۸۸۵)
’’آپ عیدالفطر کے دن کھڑے ہوئے اور خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی ۔‘‘
پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ تکبیریںہیں۔
عائشہ فرماتی ہیں : أن رسول اﷲ کان یکبر فی الفطر والأضحی فی الأولی سبع تکبیرات وفی الثانیۃ خمسا
’’آپ عیدالفطر اور الضحیٰ میں پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے۔‘‘(صحیح ابوداود:۱۰۱۸)
ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا چاہئے۔
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں: ویرفعھما فی کل رکعۃ وتکبیرۃ کبرہا قبل الرکوع(مسنداحمد:۲؍۱۳۴)
’’آپ رکوع سے پہلے ہر رکعت میں تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے۔‘‘
عیدین کی نماز میں مسنون قراء ت یہ ہے۔
عمر بن خطاب کہتے ہیں: کان یقرأ فیہا بق والقرآن المجید واقتربت الساعۃ وانشق القمر(صحیح مسلم:۸۹۱)
’’ آپ اس میں ق ٓوالقرآن المجید اور اقتربت الساعۃ وانشق القمر کی تلاوت کرتے تھے۔‘‘
نعمان بن بشیر سے روایت ہے :کان رسول اﷲ ﷺیقرأ فی العیدان وفيٍ الجمعۃبسبح اسم ربک الأعلی وہل أتاک حدیث الغاشیۃ
’’ آپ عیدین اور جمعہ میں سبح اسم ربک الاعلی اورہل أتاک حدیث الغاشیۃ کی تلاوت فرماتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم:۸۷۸)
دو رکعت سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں۔
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: أن النبی! خرج یوم الفطر فصلی رکعتین لم یصل قبلھا ولا بعدھا (صحیح بخاری:۹۸۹)
’’نبی عیدالفطر کے دن نکلے پس انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اس سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہ پڑھی۔‘‘
نماز کے بعد کھڑے ہوکر ایک ہی خطبہ دیا جاتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے ۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آپ نماز سے فارغ ہوتے :ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس،والناس جلوس علی صفوفھم فیعظہم ویوصیھم ویأمرھم (صحیح بخاری:۹۵۶)
’’پھر لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے جبکہ لوگ اپنی صفوں میںبیٹھے رہتے اور آپ ان کو نصیحت و وصیت اور احکام فرماتے۔‘‘
ملحوظہ: عذر کی بنا پر نماز عیدین مسجد وغیرہ میں پڑھی جاسکتی ہے ۔ عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ عمر کے زمانہ میں بارش ہوئی اور لوگ عیدگاہ جانے سے رُک گئے تو عمر نے لوگوں کو مسجد میں جمع کیا اور نماز عید پڑھائی پھرمنبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:یایھا الناس أن رسول اﷲ کان یخرج بالناس إلی المصلی یصلی بھم لأنہ أرفق بھم وأوسع علیھم وأن المسجد کان لا یسعھم قال فإذا کان ھذا المطر فالمسجد أرفق
’’ اے لوگو! بے شک رسول اللہ لوگوں کو عیدگاہ کی طرف نکالتے اور انہیں نماز پڑھاتے، کیونکہ یہ ان کے لئے مناسب اور آسان تھا اور مسجد اتنی وسعت نہیں رکھتی تھی اور جب بارش ہو تو مسجد زیادہ مناسب ہے۔‘‘(بیہقی:۳؍۳۱۰)
اگر عید کا دن جمعہ کا ہو تو جمعہ پڑھنے میں رخصت ہے۔ معاویہ نے زید بن ارقم سے دو عیدوں کے جمع ہونے کے وقت نماز کے فعل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : صلی العید ثم رخص فی الجمعۃ فقال: (من شاء أن یصلی فلیصل)’’عید کی نماز پڑھی اور جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا جو نماز پڑھنا چاہے پڑھ لے۔‘‘ (صحیح ابوداود:۹۴۵)
1. نماز کسوف وخسوف (سورج و چاند گرہن کے وقت کی نماز)
یہ نماز سورج یا چاند گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے۔
ابومسعود سے روایت ہے کہ : قال النبی: (إن الشمس والقمر لا ینکسفان لموت أحد من الناس ولکنھما آیتان من آیات اﷲ فإذا رائیتموھا فقوموا فصلوا) (صحیح بخاری:۱۰۴۱)
’’بے شک سورج اور چاند لوگوں میں سے کسی کی موت کی وجہ سے گرہن میں نہیں آتے وہ دونوں تو اللہ کی نشانیوں میں دو نشانیاں ہیں پس جب تم اس کو دیکھو تو نماز کی طرف بڑھو۔‘‘طریقہ
عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:انخسفت الشمس علی عہد النبی ! فصلی رسول اﷲ ! فقام قیاما طویلا نحوا من قراء ۃ سورۃ البقرۃ ثم رکع رکوعا طویلا ثم رفع فقام قیاما طویلا وھو دون القیام الاول ثم رکع رکوعا طویلا وھو دون الرکوع الاول ثم سجد ثم قام قیاما طویلا وھو دون القیام الاول ثم رکع رکوعا طویلا وھو دون الرکوع الاول ثم رفع فقام قیاما طویلا وھو دون القیام الاول ثم رکع رکوعا طویلا وھو دون الرکوع الاول ثم سجد ثم انصرف وقد تجلت الشمس
’’ نبی کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا آپ نے (باجماعت) دو رکعت نماز ادا کی آپ نے سورہ بقرہ کی تلاوت جتنا لمبا قیام کیا پھر لمبا رکوع کیا پھر اٹھے اور لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ذرا کم تھا پھر لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے ذرا کم تھا پھر سجدہ کیا پھر کھڑے ہوگئے اور لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ذرا کم تھا پھر لمبا رکوع کیا اوروہ پہلے رکوع سے ذرا کم تھا پھر اٹھے اور لمبا قیام کیا اور وہ پہلے قیام سے ذرا کم تھا پھر لمبا رکوع کیا اور وہ پہلے رکوع سے ذرا کم تھا پھر سجدہ کیا اور پھر (سلام پھیر کر) کھڑے ہوئے تو سورج صاف ہوچکا تھا۔‘‘(صحیح بخاری:۱۰۵۲ )
نماز استسقاء
خشک سالی اور بارش نہ ہونے کے وقت میں کھلے میدان میں یہ نماز ادا کی جاتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی وانکساری سے گڑگڑاتے ہوئے بارش طلب کی جائے۔اورنماز کے لئے نکلتے وقت پرانے کپڑے پہننے چاہئیں۔
عبداللہ بن عباس آپ کی اس نماز کے بارے میں کہتے ہیں:خرج رسول اﷲ ! متبذلا متواضعا متضرعا حتی أتی المصلی
’’آپ پرانے کپڑے پہنے، آہستگی سے چلتے ہوئے اور گڑگڑاتے ہوئے نکلے اور نماز کی جگہ پر پہنچے۔‘‘(صحیح ابوداود:۱۰۳۲)
طریقہ
نماز استسقاء کا طریقہ عید کی نماز کی طرح کا ہے یعنی تکبیرات کے ساتھ، لیکن اس میں خطبہ نماز سے پہلے ہوتا ہے اور اس خطبہ میں زیادہ تر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور عاجزی و انکساری سے گڑگڑاتے ہوئے بارش طلب کی جاتی ہے۔ خطبہ میں دعا کے دوران امام منبر پر ہی الٹے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے اور پھر دعاؤں کے بعد اپنا رُخ قبلہ کی جانب کرلیتا ہے اور اپنی چادر کے دونوں کونے پیٹھ پر ہی دائیں بائیں پلٹ دیتا ہے ۔ اس عمل کے بعد امام منبر سے اتر کر دو رکعت نماز پڑھائے گا سورج جب نکل رہا ہو تو خطبہ شروع کیا جائے اور نماز سورج نکلنے پر ادا کی جائے۔ اب اس طریقہ کے متعلق روایات مندرجہ ذیل ہیں:
عائشہ بیان فرماتی ہیں:شکا الناس إلی رسول اﷲ قحوط المطر فأمر بمنبر فوضع لہ فی المصلی ووعدالناس یوما یخرجون فیہ قالت عائشہ: فخرج رسول اﷲ حین بداحاجب الشمس فقعد علی المنبر فکبر ! وحمد اﷲ عزوجل ثم قال: (إنکم شکوتم جدب دیارکم واستئخار المطر عن إبان زمانہ عنکم وقد أمرکم اﷲ عزوجل أن تدعوہ ووعدکم أن یستجیب لکم) ثم قال{الحمد ﷲ رب العالمین٭ الرحمن الرحیم ٭ ملک یوم الدین۔ لا إلہ إلا اﷲ یفعل ما یرید اللھم أنت اﷲ لا إلہ إلا أنت الغنی ونحن الفقراء أنزل علینا الغیث واجعل ما أنزلت لنا قوۃ وبلاغا إلی حین) ثم رفع یدیہ فلم یزل في الرفع حتی بدا بیاض إبطیہ ثم حول إلی الناس ظھرہ وقلب أو حول رداء ہ وھو رافع یدیہ ثم أقبل علی الناس ونزل فصلی رکعتین فأنشأاﷲ سحابۃ فرعدت و برقت ثم أمطرت بإذن اﷲ (صحیح ابوداود:۱۰۴۰)
’’لوگوں نے آپ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی آپ نے عیدگاہ میں منبر بچھانے کا حکم دیاجو کہ رکھ دیا گیا آپ نے ایک دن مقرر کرلیا کہ وہ وہاں جمع ہوں اس دن جب سورج کا ایک کونہ نمودار ہوا تو آپ (گھر) سے نکلے آپ منبر پر بیٹھ گئے پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور حمد بیان کی اور فرمایا: تم نے اپنے علاقوں میں خشک سالی اور بروقت بارش نہ ہونے کی شکایت کی جبکہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہے کہ تم اس کو پکارو اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ تمہاری دعا قبول کرے گا پھر فرمایا ’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے بہت رحم کرنے والا نہایت مہربان جزا کے دن کا مالک ہے جو چاہتا ہے کرتاہے، اے اللہ تو(برحق) معبود ہے تیرے سوا کوئی (برحق) معبود نہیں تو سخی اور بے پرواہ ہے اور ہم تیرے فقیر ہیں ہم پر بارش برسا اور اس بارش کو ہمارے لئے ایک مدت تک قوت اور (مقاصد تک) پہنچنے والی بنا۔ پھر نبی نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھانے شروع کئے حتیٰ کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی پھر آپ لوگوں کی جانب اپنی پشت کرکے کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر کو پھیر کر پلٹایا آپ اس وقت اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے پھر لوگوں کی جانب منہ کرلیا اور منبر سے نیچے اتر آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بدلی پیدا کی وہ بدلی گرجی چمکی اور اللہ کے حکم سے برسنا شروع ہوگئی۔‘‘
انس بن مالک کہتے ہیں: أن النبی! استسقی فأشار بظھر کفیہ إلی السماء (صحیح مسلم:۸۹۶)
’’نبی نے بارش کے لئے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹے کر کے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
یہ دو رکعتیں عید کی نماز کی طرح ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے روایت ہے: ثم صلی رکعتین کما یصلي فی العید(صحیح ابوداود:۱۰۳۲)
’’پھر آپ نے دو رکعتیں عید کی نماز کی طرح پڑھائیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ نماز استسقاء کا طریقہ بالکل عید کی نماز کی طرح ہے یعنی یہ بھی نماز تکبیروں کے ساتھ پڑھی جائے۔واللہ اعلم
بارش کے لئے مندرجہ ذیل دعائیں آپ سے ثابت ہیں(اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا غَیْثًا مُّغِیْثًا مَّرِیْئًا مَّرِیْعًا نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَیْرَ آجِلٍ) (صحیح ابوداود:۱۰۳۶)
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا ایسا پانی کہ جو ہماری پیاس بجھا دے ہلکی پھواریں بن کر غلہ اُگانے والا، نفع دینے والا ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والا جلد آنے والا ہو ناکہ دیر سے آنے والا۔‘‘(اَللّٰھُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَھَائِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیْتَ) (صحیح ابوداود:۱۰۴۳)
’’اے اللہ! اپنے بندوں اور جانوروں کو پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلا اور اپنے مردہ شہروں کو زندہ کردے۔‘‘(اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا، اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا،اَللّٰھُمَّ اسْقِنَا)(صحیح بخاری:۱۰۱۳)
’’اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا، اے اللہ! ہمیں پانی پلا۔‘‘
]نماز جنازہ
نماز جنازہ کسی مسلمان کے مرجانے کے بعد اس کی بخشش کے لئے پڑھی جاتی ہے اور اپنے اس مردہ بھائی کی بخشش کے لئے اس میں شامل ہونا ہر مسلمان پر حق ہے۔
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: (حق المسلم علی المسلم خمس:رد السلام،وعیادۃ المریض،واتباع الجنائز، وإجابۃ الدعوۃ، وتشمیت العاطس) (صحیح بخاری:۱۲۴۰)
’’مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازہ کے لئے جانا، دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا۔‘‘
اور یہ نماز میدان یا مسجد کہیں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔طریقہ
نماز جنازہ پڑھنے کے لئے اگر میت مذکر ہو تو امام اس کے سر کے برابر کھڑا ہو اور اگر میت مونث ہو تو اس کے درمیان میں کھڑا ہوا جائے۔
ابوغالب کہتے ہیں:صلیت مع أنس بن مالک علی جنازۃ رجل،فقام حیال رأسہ،ثم جاء وا بجنازۃامرأۃ من قریش فقالوا: یا أباحمزۃ صل علیھا فقام حیال وسط السریر فقال لہ العلاء بن زیاد:ھکذا رأیت رسول اﷲ! قام علی الجنازۃ مقامک منھا ومن الرجل مقامک منہ؟ قال:نعم، فلما فرغ قال: احفظوا(صحیح ترمذی:۸۲۶)
’’میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی آپ اس کے سر کے برابر کھڑے تھے پھر ایک قریشی عورت کا جنازہ لایا گیا لوگوں نے پھر انہیں کہا کہ ابوحمزہ اس کا جنازہ پڑھائیں،پس آپ اس کی چارپائی کے درمیان میںکھڑے ہوئے۔ علاء بن زیاد نے آپ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ کو آپ نے اسی طرح کرتے دیکھا ہے کہ وہ مذکر مونث کے لئے اس مقام پر کھڑے ہوتے جس پر آپ کھڑے ہوئے، انس فرمانے لگے جی ہاں اور جب وہ فارغ ہوگئے تو فرمایا اس طریقہ کو یاد رکھو۔‘‘
اس میں چار یا پانچ تکبیریں ہیں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ اور کوئی سورت۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اسی طرح تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعائیں کی جائیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے۔
اس طریقہ کے متعلق ترتیب وار روایات پیش کی جاتی ہیں:
جابر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: أن النبی صلی علی اصحمۃ النجاشي فکبر أربعا(صحیح بخاری:۱۳۳۴)
’’آپ نے اصحمہ نجاشی کا جنازہ چار تکبیروں کے ساتھ پڑھا۔‘‘
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم جنازوں میں چار تکبیریں کہتے تھے اور ایک جنازہ پر پانچ تکبیریں کہیں میں نے اس کے متعلق سوال کیا تو کہنے لگے: کان رسول اﷲ یکبرھا(صحیح مسلم:۹۵۷) آپ (پانچ) تکبیریں بھی کہا کرتے تھے۔‘‘
ابوامامہ بن سہیل سے روایت ہے کہ : السنۃ فی الصلاۃ علی الجنائز أن یکبر ثم یقرأ بأم القرآن ثم یصلی علی النبی ثم یخلص الدعاء للمیت ولا یقرأ إلا فی التکبیرۃ الاولی ثم یسلم في نفسہ عن یمینہ (مصنف عبدالرزاق:۶۴۲۸)
’’نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ تکبیر کہو پھر سورہ فاتحہ پڑھو پھر نبی پردرود پڑھو پھر خاص طور پرمیت کے لئے دعا کرو ، قرأت صرف پہلی تکبیر میں کرو پھر اپنے دل میں دائیں طرف سلام پھیر دو۔‘‘
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں: صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرأ بفاتحۃالکتاب وسورۃ،وجھرحتی أسمعنا،فلما فرغ أخذت بیدہ فسألتہ فقال: سنۃوحق (صحیح نسائی:۱۸۷۹)
’’میں نے عبداللہ بن عباس کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی پس انہوں نے سورہ فاتحہ اور کوئی سورت جہراً پڑھی یہاں تک کہ ہمیں سنوایا پس جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کے متعلق سوال کیا، اُنہوں نے فرمایا: یہ سنت ہے اور حق ہے۔‘‘
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: ثلاث خلال کان رسول اﷲ1 یفعلن ترکھن الناس إحداھن التسلیم علی الجنازۃ مثل التسلیم في الصلاۃ (بیہقی:۴۳۱۴)
’’ تین خصلتیں جن کو رسول اللہ1 کرتے تھے لوگوں نے ان کو چھوڑ دیا ہے ان میں سے ایک جنازہ میں نماز کی طرح سلام پھیرنا ہے (یعنی دو طرف سلام)‘‘مسنون دعائیں
نماز جنازہ کے متعلق مندرجہ ذیل دعائیں آپ سے ثابت ہیں جو آپ نے جنازہ میں پڑھیں:(اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہٗ وَعَافِہِ وَاعْفُ عَنْہٗ وَأَکْرِمْ نُزُلَہٗ وَوَسِّعْ مُدْخَلَہٗوَاغْسِلْہٗ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ،وَنَقِّہِ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْہٗ دَارًا خَیْرًا مِنْ دَارِہِ،وَأَھْلًا خَیْرًا مِنْ اَھْلِہِ، وَزَوْجًا خَیْرًا مِنْ زَوْجِہِ،وَأَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ وَأَعِذْہٗ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ[وَقِہِ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ] ) (صحیح مسلم:۹۶۳)
’’اے اللہ! اسے بخش دے اور اس پر رحم فرما، اسے عافیت میںرکھ اس سے درگزر فرما، اس کی بہترین مہمانی فرما، اس کی قبر کو کھول دے اور اس کے (گناہ) پانی اور اولوں اور برف سے دھو ڈال اور اس کی غلطیاں صاف فرما دے جس طرح تو سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے اور اسے اس کے گھر سے بہتر گھر اور اہل سے بہتر اہل اور بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما اور اسے جنت میں داخل فرما اور عذاب قبر آگ کے عذاب سے اسے بچالے۔‘‘(اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا،وَشَاھدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا، وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الِاسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مَنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الِایْمَانِ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہٗ)(صحیح ابن ماجہ:۱۲۱۷)
’’اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردے، حاضر اور غائب، چھوٹے اور بڑے، مذکر و مونث کو بخش دے۔ اے اللہ! ہم میں سے جس کو تو زندہ رکھنا چاہتا ہے اس کو اسلام پر زندہ رکھ، اور جس کو تو فوت کرنا چاہتا ہے اس کو ایمان کی حالت پر مارنا۔ اے اللہ! ہمیں اس (میت) کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں گمراہی میں نہ ڈالنا۔‘‘(اَللّٰھُمَّ عَبْدُکَ وَابْنُ اَمَتِکَ،اِحْتَاجَ إلـٰی رَحْمَتِکَ،وَأَنْتَ غَنِیٌّ عَنْ عَذَابِہِ إنْ کَانَ مُحْسِنًا فَزِدْ فِيْ اِحْسَانِہِ،وَإنْ کَانَ مُسِیْئًا فَتَجَاوَزْ عَنْہٗ) (مستدرک حاکم:۱؍۳۵۹)
’’اے اللہ! یہ تیرا بندہ اور تیری باندی کا بیٹا ، تیری رحمت کا فقیر ہے تو اس کے عذاب سے غنی ہے اگر یہ نیک تھا تو تو اس کی نیکی میں اضافہ کر اور اگر گناہ گار تھا تو درگزر فرما۔‘‘
1. حواشی
ضمیمہ
مختصر صفۃ الصلاۃ از البانی مترجم سعید مجتبیٰ سعیدی
مختصر طریقہ نماز از شیخ ابن باز
مرد عورت کی نماز کا فرق
احادیث اور عربی عبارتوں پر اعراب
تمام حوالے ۱۱ پوائنٹ میں
حواشی نیچے جس میں صرف صحت وضعف یا زیادہ سے زیادہ کسی کتاب کا حوالہ ڈال دیں
ہر بحث کے آخرمیں مراجع کا تذکرہ اور ہر دعویٰ کی دلیل یا تو حدیث سے یا فتویٰ سے۔
جو تخریجات اور تحقیقات نصف سطر سے زائدہیں، ان کوحاشیہ میں کیا جائے۔
مقدمہ
فہرست مضامین
آصف احسان کے مضمون نماز کی کوتاہیاں سے کتاب میں استفادہ کرلیں
حواشی کا اختصار
ختم شد
No comments:
Post a Comment
Thanks for your comment.
Admin....