مسئلہ تراویح اور سعودی علماء
مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں ۲۰ تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں ، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں ، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں ، پھر بیت اللہ میں کیوں ۲۰ تراویح پڑھائی جاتی ہیں ؟ تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف کیا ہے؟زیر نظر مضمون میں اسی مسئلہ کو زیر بحث بنایا گیا ہے۔ ح م
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ''
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ '' 2
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہ رحمة اللہ علیہ اورابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔
امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ''حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔''3
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
- یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
- پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔
تراویح ہی ماہِ رمضان میں تہجد ہے
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپؐ نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا،یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے، چنانچہ آپؐ نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی، پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں پڑھایا، پھر پچیسویں رات کو آپؐ نے قیام پڑھایا،یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ ؐنے قیام نہیں پڑھایا، پھر ستائیسویں رات کو آپؐ نے اتنا لمبا قیام پڑھایا کہ ہمیں سحری فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔''4
تواس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نمازِ تراویح پر ہی اکتفا کیا اور اس کے بعد نمازِ تہجد نہںپ پڑھی، کیونکہ سحری تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تراویح ہی پڑھاتے رہے، اور اگر اس میں اور نمازِ تہجد میں کوئی فرق ہوتا یا دونوں الگ الگ نمازیں ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کے بعد تہجد پڑھتے۔لہٰذا رمضان میں تراویح ہی نمازِ تہجد ہے،اورعام دنوں میں جسے نمازِ تہجد کہتے ہیں وہی نماز رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حضرت عائشہ ؓ کی (پہلی) حدیث کو کتاب التراویح میں روایت کیا ہے ،اس لئے اس سے نمازِ تہجد مراد لینا ،اور پھر اس میں اورنمازِ تراویح میں فرق کرنا قطعاً درست نہیں ۔
کیا حضرت عمرؓنے بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا؟
ہم نے موطأ اور مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے سائب بن یزید کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓ کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے جہاں یہ اثر روایت کیا ہے، ا س کے فوراً بعد ایک دوسرا اثر بھی لائے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ یزید بن رومان کا کہنا ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات رمضان میں پڑھا کرتے تھے۔ (موطا:۱؍۷۳) لیکن یہ دوسرا اثر منقطع یعنی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے عہد ِعمرؓ کو پایا ہی نہیں ، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی پہلا اثر راجح ہوگا کیونکہ اس میں یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے دو صحابیوں کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے اثر میں یہ ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ توجس کام کا عمرؓنے حکم دیا، وہی راجح ہوگا، کیونکہ وہ سنت کے مطابق ہے۔
نوٹ: حضرت عمرؓ کے متعلق بیس تراویح والے تمام آثار ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح ثابت نہیں ۔(i)
خلاصۂ کلام
گزشتہ مختصر بحث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت گیارہ رکعات ہے، اور حضرت عمرؓ نے بھی اسی سنت کو زندہ کیا اور گیارہ رکعات کا التزام کیا۔ جہاں تک کچھ ائمہ کرام کا یہ موقف ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ سے زیادہ رکعات بھی پڑھی جاسکتی ہے، تو یہ اس بنا پر نہیں کہ زیادہ رکعات سنت ِنبویؐ سے ثابت ہیں ، بلکہ محض اس بنا پر کہ چونکہ یہ نماز نفل ہے، اور نفل میں کمی بیشی ہوسکتی ہے،اس لئے گیارہ سے زیادہ بیس یا اس سے بھی زیادہ رکعات پڑھی جاسکتی ہیں ، اور ہمارا خیال ہے کہ کم از کم اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ سنت اور افضل کیا ہے؟ تو جب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے اور رات کی جو نفل نماز عام دنوں میں آپؐ پڑھا کرتے تھے، وہی نماز رمضان میں تراویح کہلاتی ہے، تو یقینی طور پر نمازِ تراویح کے مسئلے میں سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی ہے، باقی نفل سمجھ کر کوئی شخص اگر گیارہ سے زیادہ پڑھتا ہے تو اس پر کوئی نکیر نہیں ہونی چاہئے،البتہ اسے سنت تصور نہیں کیا جاسکتا،اور اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اور سعودی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔
مسئلہ تراویح اور سعودی علما
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعلہ غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''5
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''
سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنہ ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''6
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''
اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
- شیخ عبداللہ بن قعود،
- شیخ عبداللہ بن غدیان
- شیخ عبدالرزاق عفیفی
- شیخ ابن باز
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معہا، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشـرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلک، وأرجح ھذہ الأقوال أنہا إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضی اﷲ عنہا... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعنی من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضی اﷲ عنہ قال: أمر عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بـإحدی عشرة رکعة''7
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''
سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ
- یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
- مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
- سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔
نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ اعلم!
سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔
- محدث کے شمارئہ جولائی ۲۰۰۷ء میں بعض اغلاط کی تصحیح
- صفحہ نمبر۱۹ کی سطر نمبر ۵ کا آخری لفظ رحمہم اﷲ پڑھا جائے۔
- صفحہ نمبر۴۴ کی سطر نمبر۱۷ میں ولکم التوفیق والسداد پڑھا جائے۔
- صفحہ نمبر ۳ کے حاشیے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کا نام غلطی سے شائع ہوگیاہے، روزنامہ نوائے وقت کے ایک مضمون سے یہ واقعہ اخذ کیا گیا تھا جو درست نہیں کیونکہ مولانا علی میاں تو۳۱؍دسمبر ۱۹۹۹ء کو وفات پاچکے ہیں ۔
- صفحہ نمبر ۲۱ پر اشتہار 'ضرورتِ کتب برائے لائبریری' میں رابطہ کے لئے میاں بشیر احمد شاکر موبائل 0300-4461165 کا اضافہ کرلیں۔
محدث کے شمارئہ اگست ۲۰۰۷ء کے صفحہ نمبر ۱۹ پر قابل اصلاح الفاظ
- مُجْرٰگھَا ایک متواتر قراء ت کے مطابق
- مُجْرَیْ ھَا دوسری متواتر قراء ت (تقلیل) کے مطابق
- مُجْرَیْ ھَا تیسری متواتر قراء ت (امالہ) کے مطابق
- مَجْرَیْ ھَا چوتھی متواتر قراء ت (امالہ، روایت ِحفص) کے مطابق
نماز ِوتر اور دعائے قنوت
نمازِ وتر
نمازِ تراویح (یا نمازِ تہجد) کے بعد سب سے آخری نفل نماز 'وتر' کہلاتی ہے۔ نمازِ وتر کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''صبح (فجر طلوع) ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔''
نمازِ وتر کی رکعات
نمازِ وتر طاق عدد کی نماز ہے اور یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو تک پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ احادیث میں ایک وتر سے لے کر نو تک کا ثبوت ملتا ہے۔مثلاً
''حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے (ایک مرتبہ وتر کی) نو رکعتیں پڑھیں ۔ ان میں سے صرف آٹھویں رکعت پر تشہد کے لئے بیٹھے ... پھر نویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرا۔'' 10
حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الوتر حق علیٰ کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل)11
''وتر پڑھنا ہرمسلمان پر حق ہے لہٰذا جو پانچ وترپڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھ لے، جو تین پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔''
حضرت اُمّ سلمہؓ سے مروی ہے کہ
''اللہ کے رسولؐ جب پانچ یا سات وتر پڑھتے تو ان کے درمیان سلام یا کلام کے ساتھ فاصلہ نہیں کرتے تھے۔'' 12
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
''اللہ کے رسولؐ جب پانچ وتر پڑھتے تو ان میں صرف آخری رکعت پربیٹھتے۔''13
وتر کی ادائیگی کا طریقہ
نمازِ وترکی اَدائیگی کے مختلف طریقے احادیث سے ثابت ہیں ۔ ان میں سے دو طریقے زیادہ واضح ہیں :
ایک تو یہ کہ ایک وتر سے لے نو تک جتنے وتر پڑھنے ہوں ، اُنہیں اکٹھا پڑھ لیا جائے اور اس صورت میں تین وتروں کے علاوہ باقی صورتوں میں دو تشہد کئے جائیں ، ایک آخری رکعت پر اور ایک آخری سے پہلی پر۔
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دو دو رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور آخر میں صرف ایک ہی رکعت پڑھ لی جائے۔ اس کے علاوہ بھی نمازِ وتر کی کئی صورتیں احادیث سے ملتی ہیں جن کی تفصیل امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ کی کتاب المُحلّٰی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔(صفحہ نمبرز ؟؟؟؟)
تین وتروں کی ادائیگی کا طریقہ
تین وتروں کی ادائیگی دیگر وتروں کے مقابلہ میں ذرا مختلف ہے اور وہ اس لئے کہ ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (ولا تشبھوا بصلاة المغرب)14
''وتروں کو نماز مغرب کے مشابہ نہ بناؤ۔''
نمازِ مغرب کی مشابہت سے بچنے کے لئے وتروں کی ادائیگی کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ نمازِ وتر کی دوسری رکعت میں تشہد نہ کیا جائے بلکہ تیسری اور آخری رکعت میں ایک ہی تشہد کرکے سلام پھیر دیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھ کر سلام پھیر دیا جائے پھرتیسری رکعت علیحدہ پڑھ لی جائے۔
فقہاے احناف نے اس کی تیسری صورت بھی ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ دوسری اور تیسری رکعت پرتشہد کیاجائے اور یہ نمازِ مغرب کے ساتھ اس لئے مشابہت نہیں کریں گے کہ آخری رکعت میں مغرب کے برخلاف امام اونچی آواز میں تلاوت کرتا ہے۔ واللہ اعلم
وتروں میں قراء ت
وتروں میں کوئی بھی سورت پڑھی جاسکتی ہے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ نمازِ وتر کی پہلی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبح اسم ربک الأعلیٰ اور دوسری میں قل یٰأیھا الکٰفرون اور تیسری میں قل ھو اﷲ أحد پڑھا کرتے تھے۔ 15
وتروں میں قنوت
یہاں قنوت سے مراد وہ دعا ہے جو دورانِ نماز آخری رکعت میں رکوع سے پہلے یا بعد میں کی جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کی دعاے قنوت ثابت ہے۔ ایک تو نمازِ وتر کی آخری رکعت میں اور دوسری فرض نمازوں کی آخری رکعت میں ۔ فرض نمازوں میں کی جانے والی دُعا کو قنوتِ نازلہ کہا جاتاہے اور یہ دُعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی حادثہ، مصیبت یا جہاد کے موقع پر یا مجاہدین کی مدد کے لئے کیا کرتے تھے اور یہ دعا آپؐ سے رکوع کے بعد مروی ہے۔ 16
جبکہ قنوتِ وتر آپ نے بالعموم رکوع سے پہلے ہی کی ہے۔17
فقہاے احناف قنوتِ وتر کے لئے رکوع سے پہلے اور حنابلہ اسے قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد کا تعین کرتے ہیں اور رکوع سے پہلے بھی جائز کہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک قنوتِ وتر رکوع سے پہلے کی جائے یا فرض نمازوں میں ہونے والی قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد کی جائے، دونوں طرح درست ہے اور اس میں بے جا سختی کرنا غیر مناسب ہے، بالخصوص اس لئے بھی کہ خود کئی ایک صحابہؓ سے قنوتِ وتر رکوع کے بعد بھی منقول ہے۔18
قنوتِ وتر کی دعائیں
حضرت حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے مجھے قنوتِ وتر کے لئے یہ کلمات سکھائے تھے :
(اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَإِنَّکَ تَقْضِيْ وَلاَ یُقْضٰی عَلَیْکَ إِنَّہٗ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)19
''اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کی صف میں شامل فرما جنہیں تو نے رُشدو ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے۔ اور جن لوگوں کو تو نے اپنا دوست بنایا ہے، ان میں مجھے بھی شامل کرکے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایاہے، اس میں میرے لئے برکت ڈال اور جس شر اور برائی کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ۔ یقینا تو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تو والی بنا، وہ کبھی ذلیل و خوار اور رسوا نہیں ہوسکتا اور وہ شخص عزت نہیں پاسکتا جسے تو دشمن کہے۔ ہمارے پروردگار آقا! تو (بڑا) ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔''
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ اپنی نمازِ وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
(اَللّٰھُمَّ إِنِيْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِيْ ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ)20
''یا اللہ! میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اور تیری عافیت کے ساتھ تیری سزا سے پناہ مانگتا ہوں ۔ میں تجھ سے تیری ہی پناہ طلب کرتا ہوں ۔ میں تیری وہ حمدوثنا شمار نہیں کرسکتا جو تو نے خود اپنے لئے کی ہے۔''
وتروں سے سلام کے بعد
حضرت اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ وتروں سے سلام پھیر کر تین بار یہ پڑھتے:
(سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسِ)21
''پاک ہے بادشاہ ، نہایت پاک ہے۔''
حوالہ جات
1. صحیح بخاری: ۲۰۱۳
2. صحیح ابن خزیمہ :۱۰۷۰،ابن حبان۲۴۰۱، ابویعلی ۳؍۳۳۶، صحیح بخاری ۲۰۱۲
3. موطأ: ۱؍۷۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۱
4. سنن ترمذی:۸۰۶حسن صحیح،سنن ابی داود:۱۳۷۵،ابن خزیمہ: ۲۲۰۶
5. فتاوٰی اللجنة الدائمة ۷؍۲۱۲
6. فتاوٰی اللجنة الدائمة : ۷؍۱۹۴
7. مجالس شہر رمضان: ص۱۹
8. صحیح مسلم:۷۵۴
9. صحیح ابن ما جہ:۵۹۸
10. مسلم:۷۴۶
11. صحیح ابوداود للالبانی رحمة اللہ علیہ :۱۲۶۰
12. صحیح ابن ماجہ:۹۸۰
13. صحیح مسلم:۲۳۷
14. دارقطنی:۲؍۲۴، بیہقی :۳؍۳۱، حاکم:۱؍۳۰۴
15. ابن ماجہ:۱۱۷۱، ترمذی
16. بخاری:۱۰۰۲
17. صحیح ابوداود:۱۲۶۶، ابن ما جہ:۱۱۸۲
18. مصنف ابن ابی شیبہ:حوالہ مکمل ؟؟؟
19. ابوداود :۱۴۲۵، ترمذی :۴۶۴، بیہقی:۲؍۲۰۹
20. ابوداود:۱۴۲۷، ترمذی:۳۵۶۶
21. ابوداود: 1430
No comments:
Post a Comment
Thanks for your comment.
Admin....