Friday, July 19, 2013

امام کعبہ کا مرکزی جمعیت اہل حدیث کے کنونشن سے خطاب

امام کعبہ کا مرکزی جمعیت اہل حدیث کے کنونشن سے خطاب

۳۱
 مئی
 کو ۱۲ بجے امام کعبہ شیخ عبد الرحمن سدیس الحمرا ہال نمبر ۱ میں علما سے مخاطب ہوئے۔ یوں تو شیخ کے تمام خطابات اپنی مثال آپ ہیں لیکن آپ کا جو خطاب سب سے زیادہ نشر کیا گیا اور مستقبل میں بھی اس کوایک یادگار حیثیت حاصل رہے گی، وہ یہی خطاب ہے۔ اس خطاب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس خطاب کے پانچ تراجم بمعہ عربی متن شائع ہوکر لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ اس خطا ب کے دوران شیخ سدیس کی فرحت و مسرت دیدنی تھی جس کا اظہار اُنہوں نے اپنے خطاب کے آغاز میں ان الفاظ سے فرمایا:


 فیَعلم اﷲ الذي لا إلہ غیرہ أن ہذہ المناسبة من أعَزِّ المناسبات وأحَبِّہا إلی نفسي


''میرا ربّ جانتا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آج کی یہ تقریب میرے لئے تمام تقریبات سے عزیز ترین اور محبوب ترین ہے۔''





آگے چل کر پھر ان الفاظ میں اظہارِ مسرت فرماتے ہیں:


سعادتي لا تُوصف وابتہاجي لا تَحُدُّہ حدودُ باکستانَ بل إنہا لا تَتَسامٰی عن ذلک فِي الأرض کلِّہا، أن اَلْتَقِيْ بأَحَبِّ النَّاسِ وَأَعَزِّ النَّاسِ وَأَصْدَقِ النَّاسِ، أحسِبُہم کذلک ولا أزَکّي علی اﷲ أحدًا


''میری خوش نصیبی بیان سے باہر ہے اور میری مسرت پاکستان کی سرحدوں سے متجاوز ہے بلکہ روے زمین پر اس سے بڑھ کر کوئی سعادت ہونہیںسکتی کہ میں تمام لوگوں سے محبوب ترین، اپنے ہاں سب سے زیادہ معزز اور سب سے مخلص لوگوں سے ملاقات کررہا ہوں۔ میری رائے اِن حضرات کے بارے میں تو یہی ہے ، البتہ میں اللہ سے زیادہ باخبر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔''





یہ واحد پروگرام تھا جس میں شریک ہونے والے قائدین کوحکومت کے ناقدین میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام امامِ کعبہ کے باضابطہ شیڈول میں موجود نہیں تھا لیکن امام موصوف کی ذاتی دلچسپی اس پروگرام کے انعقاد کا سبب و محرک ٹھہری، البتہ چوہدری پرویز الٰہی اس میں شریک نہ ہوئے۔ اس پروگرام میں جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد، جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید اور دیگر نامور قائدین نے بھی شرکت فرمائی جبکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث تو خود کنونشن کی داعی تھی، اس لئے اس کے امیر و ناظم اعلیٰ سے لے کر اکثر وبیشتر ملکی عہدیداران اس موقعہ پر موجود تھے۔ پروگرام میں گوناگوں قائدین کو موجود پا کر امامِ کعبہ نے حیرت واستعجاب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :


فإن جمعیة أہل الحدیث الیومَ تُمثِّل وحدةَ المسلمین حینما دَعَتْ رؤساء الجمعیات الأخرٰی لِنَکُون جمیعًا أہل حدیث ولنکون جمیعًا جماعة إسلامیة ولنکون جمیعا جماعة دعوةٍ


''آج جمعیت اہل حدیث نے مسلمانوں میں اتحاد ویگانگت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ او روہ یوں کہ اُنہوں نے دیگر تحریکوں ؍تنظیموں کے سربراہان کو بھی یہاں شرکت کی دعوت دی ہے تاکہ آج ہم سب اہل حدیث بن جائیں اور ہم سب جماعت اسلامی بن جائیں اور ہم سب جماعت الدعوة بن جائیں۔''





جمعیت اہل حدیث کی اس اتحاد ویگانگت کی کوشش کو سراہتے ہوئے انہوں نے فرمایا:


وأحسب أن جمعیة أہل الحدیث من الجمعیات الرائدة في تحقیق وحدة المسلمین وجمع کلمتہ، بورکت جہودہا وسددت في أعمالہا وأثاب اﷲ القائمین علیہا لأنہم یدعون إلی توحید اﷲ، یدعون حیث دعا رسل اﷲ


میں سمجھتا ہوں کہ جمعیت اہل حدیث کا اُمت ِمسلمہ کو متحد ومتفق کرنے اور ان کے کلمہ کو مجتمع کرنے میں ایک نمایاں کردار ہے، اللہ ان کی کوشش کو بابرکت بنائے، ان کے کاموں کو راہِ راست پر مستقیم فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس کے کارپردازان کو سلامت رکھے کیونکہ یہ لوگ توحید کے داعی ہیں، یہ اس دعوت کے حامل ہیں جس کی طرف اللہ کے رسولوں نے انسانیت کو بلایا۔





چونکہ یہ کنونشن ایک معروف دینی تحریک کی طرف سے منعقد کیا جارہا تھا، ا س لئے یہاں امامِ کعبہ کے خطاب کا موضوع بھی 'عقیدہ ومنہج' تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے دین کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان فرماتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت صرف توحید کی اساس پر، اور سنت ِنبویؐ کی پیروی پر مستقیم رہ سکتی ہے۔ اُنہوں نے دورِ حاضر کے چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کے لئے اسلام او راُمت ِاسلامیہ کے اتحاد کو ازبس لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا:


لکن علی ماذا تکون أُسُسُ الوحدة؟ تکون علی منہج الکتاب والسنة


''لیکن اس وحدت واتحاد کی بنیادیں کیا ہوں؟ یہ بنیاد کتاب وسنت کی اتباع ہی ہوسکتی ہے۔''





انہوں نے کہا کہ اس دعوت میں اہل علم کے فضل ومرتبہ کا اہتمام والتزام کرنا اشد ضروری ہے ، اس دعوت کی بنیادیں علم حقیقی (قرآن وسنت) میں پیوست ہیں۔ فرمایا:


فلا ینبغي أن نتساہل بشأن العلم فینبغي أن نُعْنٰی بالعلم بکتاب اﷲ والعلم بسنة رسولہ ﷺ والعلم باللغة العربیة التي ہي لغة القرآن الکریم والسنة النبویة


''علم کے حصول میں کوتاہی کسی طرح بھی درست رویہ نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن مجید اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کو سیکھیں اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کریں جو قرآنِ کریم اور سنت ِنبویہؐ کی زبان ہے۔''





علما کی عظمت وشان کے حوالے سے آپ نے ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ علماے شریعت کی شان ومرتبہ میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے سے احتراز واجتناب لازمی ہے۔علما پر کوئی الزام عائد کرنے سے پہلے ان کو اجتہادی خطا پر (بشریت کے تقاضوں کے پیش نظر) معذور سمجھا جائے:


لا ینبغي التعجُّل في الوقیعة بالعلماء بل لا بد من التماس العُذر لہم!


اسلام پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں منہج سلیم کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ نے کہا :


''فإنہا دَعوة، دعوة إلی الاعتصام بالکتاب والسنَّة بعیدًا عن المُسمَّیات والشِّعَارات،فنَحن ندعو إلی کتاب اﷲ وسنَّة رسولہ ونحبُّ من کان حریصًا مُتَّبِعا لکتاب اﷲ وسنة رسولہ ﷺ بمنہج السلف الصالح''


''یہ اسلام کی دعوت دراصل کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لینے کی دعوت ہے جو مختلف ناموں اور علامتوں سے کہیں بالاتر ہے۔ ہماری دعوت کتاب اللہ اور سنت ِرسولؐ کی دعوت ہے۔ ہمیں اس شخص سے دلی محبت ہے جو کتاب وسنت کی اتباع کا شائق و حریص ہو، جس ڈھنگ پر اس اُمت کے سلف صالحین کاربند رہے ہیں۔''




دین کے مفہوم اوراس کی دعوت کے حوالے سے اپنے مذکورہ بالا خیالات پیش کرتے ہوئے آپ نے اس تصور کا حامل 'اہل حدیث' کو قرار دیا اور یہ عربی اَشعار پڑھے :


أھل الحـــدیث ہمــو آل النبـي وإن لم یصحبوا نفسہ أنفاسہ صحبوا


سلامي علی أہل الحدیث فإنـني نشأت علی حبِّ الأحادیث من مَّہد


ہمو نشروا في الکون سنة أحمدا بـلا صــد منــہـــم فیہــا ولا وِرد


''اہل حدیث تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل وعیال ہیں، جو ذاتِ نبویؐ کی صحبت سے مشرف تو نہیں ہوئے، البتہ ان کے سانس ضرور اس سے عطر بیز رہتے ہیں۔ اہل حدیث کو میرا سلام ہو کیونکہ بچپن سے میں بھی احادیث کی محبت میں ہی پروان چڑھا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کائنات میں سنت ِاحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نشرواشاعت کی اور اس میں اُنہوںنے کوئی کمی بیشی نہیں کی۔''




اس شعر میں اہل حدیث کو آل النبیؐ (نبی کے روحانی وارث) قرار دینے کی وجہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یوں تو یہ صحابیت کے شرف سے محروم ہیں، لیکن فرامینِ نبویؐ کے ہروقت تذکرے سے گویاان کی مشامِ جان ہردم صحبت ِ نبویؐ سے عطر بیز رہتے ہیں۔یعنی صحابیت کے حقیقی وصف کی بجائے اس مبارک فعل کی بنا پر اُنہیں اس کا معنوی وصف 'کلامِ نبوی کو سننا سنوانا' ضرور حاصل ہوا ہے۔ پھر امامِ کعبہ نے نجات یافتہ گروہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ذکر فرمایا:


إن لم یکونوا أہل الحدیث فلا أدري من ہم؟


''اگر اہل حدیث فرقہ ناجیہ نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ اور کون ہیں؟''





انتہائی فرحت ومسرت کے عالم میں ہونے والا امام کعبہ کا یہ خطاب نہ صرف دیگر خطابات کی نسبت کافی طویل ہے بلکہ جا بجا قیمتی ارشادات اور علمی نکات سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے خطاب میں دنیا بھر میں اہل حدیث کے شاندار کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا:


أیہا الإخوة! إن جمعیة أہل الحدیث المرکزیة من الجمعیات الرَّائدة، لیس في مستوٰی باکستان فقط وإنما في العالم الإسلامي کلِّہ بل في العالمِ أجمع۔ زُرتُ أمریکا وزرتُ بریطانیا وزُرت أماکنَ شتّٰی في العالم فوجدتُّ لأہل الحدیث دعوةً ووَجدتُّ لہٗ مساجد ووجدت لہم نشاطًا یُشْکرون علیہ، لیس ہذا تعصُّبًا ولا تحیُّزا


''میرے بھائیو! مرکزی جمعیت اہل حدیث نہ صرف پاکستان،پورے عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں ایک اُبھرتی ہوئی نمایاں جمعیتہے۔ مجھے امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے، وہاں بھی اہل حدیث کی دعوت موجود ہے، ان کی ہرجگہ مساجد ہیں اور ان کے کاموں میں کافی حرکت و نشاط پائی جاتی ہے جس پر ان کی قدر افزائی ہونی چاہئے۔ واضح رہے کہ میں یہ باتیں کسی تعصب اورہم نوائی کی بنا پر نہیں کہہ رہا ہوں۔''





امام کعبہ نے منہج وعقیدہ کی اس راست روی اور دیگر گوناگوں خوبیوںکی بنا پر اُمت ِمسلمہ کو بھی منہج سلف صالحین اختیا رکرنے کی دعوت دی:


فکلُّ مُسلِم ینبغي أن یکون أہل حدیث وکل مسلم ینبغي أن یکون أہل توحید وأہل سنة وأہل رعایة لمنہج سلف ہذہ الأمة رحمہم اﷲ


''ہرمسلمان کو اہل حدیث ہونا چاہئے، ہرمسلمان کو اہل توحید اور اہل سنت ہونا چاہئے اور اس اُمت کے ائمہ اسلاف کے منہج کی رعایت رکھنے والا ہونا چاہئے۔''





شُکرًا لجمعیة أہل الحدیث وسلامي علی أہل الحدیث ودعائي لأہل الحدیث جمیعًا وجمیع إخواننا المسلمین في باکستان وجمیع جمعیات الإسلامیة الداعیة للإسلام فجزا اﷲ الجمیع خیرًا


'' میں جمعیت اہل حدیث کا شکرگزار ہوں، اہل حدیث حضرات کو میرا سلام ہو، میری دعائیں تما م اہل حدیث حضرات او رپاکستان کے تمام مسلمان بھائیوں کے لئے ہیں۔ اور ان تمام اسلامی جمعیتوں کے لئے بھی جو اسلام کی طرف بلانے والی ہیں، اللہ تمام کو بہترین جزا عطا فرمائے۔''





اپنے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے تحریک ِاہل حدیث کو سعودی عرب اور حرمین شریفین کے علما کے افکار ودعوت کا تسلسل اور ان سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا:


وندعو لکم دائمًا في رحاب الحرم الشریف وأنتم امتداد لما علیہ علماء المملکة العربیة السعودیة وأہل الحرمین الشریفین وأئمة الحرمین الشریفین وعلماء مکة والمدینة وجمیع بلاد إخوانکم في المملکة العربیة السعودیة فجزاکم اﷲ خیرًا وبارک في جہودکم، شکرًا لکم


ہم حرم شریف میں ہمیشہ آپ کے لئے دعاگو رہتے ہیں کیونکہ آپ اس (دعوت) کا تسلسل ہیں جس پر مملکت ِسعودی عرب کے علما، حرمین شریفین کے باشندے، حرمین شریفین کے ائمہ کرام، مکہ اور مدینہ کے علماے عظام اور مملکت ِسعودی عرب میں آپ کے تمام بھائی کاربند ہیں۔ اللہ آپ کو جزاے خیرعطا فرمائے، آپ کی کاوشوں کو بابرکت بنائے، ہم آپ کے شکرگزار ہیں۔''





ایک شبہ اور اس کا ازالہ


اس خطاب میں تحریک ِاہل حدیث کے بارے میں جن مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا گیا ہے اور جس طرح دوٹوک الفاظ میں ان کی حمایت وتائید کے ساتھ اُنہیں حرمین شریفین کا تسلسل قرار دیا گیا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام موصوف کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی...؟





غالباً اس کی ضرورت یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں تحریک ِاہل حدیث کے حوالے سے عوامُ الناس میں مختلف شبہات پیدا کئے جاتے ہیں اور اس کا تعارف جادئہ حق سے منحرف ایک تحریک کے طور پر کرایا جاتا ہے۔ اس تعارف کے پس پردہ انگریز استعمار اور مغربی سامراج کی سلفیت یا اپنے خود ساختہ تصورِ 'وہابیت' کے خلاف بڑی شدومد سے پھیلائی جانے والی نفرت بھی شامل ہے۔ امام کعبہ نے اپنے اس خطاب کے ذریعے گویا اس تصور کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص جمعیت ِاہل حدیث اور کنونشن میں موجود اہل حدیث علماکو مخاطب۷ کرکے ان کی ملکی وبین الاقوامی خدمات کی جو تحسین وتائید اُنہوں نے فرمائی ہے، اس سے اُن کامقصود بالکل واضح اور ظاہر وباہرہے۔





لیکن یہاں اس امرکی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ شیخ عبدالرحمن سدیس اس بیت اللہ العظیم کے امام ہیں جوتمام مسلمانوں کا قبلہ وکعبہ ہے، چنانچہ اُنہوں نے اپنے خطاب میں بھی اس جامعیت کو ملحوظ رکھا ہے، نہ کہ اُنہوں نے اس طرح کسی تعصب کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اُنہوں نے اہل حدیث کے اس تصور کو مجلس میں موجود افراد کے ساتھ متعین کرنے کے علاوہ اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جو کتاب وسنت کی غیرمشروط اتباع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِن الفاظ کے ذریعے اُنہوں نے دوسروں کوبھی اسی دعوت کی ترغیب دی ہے:


وحینما أقول أہل الحدیث أؤکد أنني أرید العموم، أرید أن نَّکون کلُّنا کذلک،کلنا ذلک الرجل۔ ومَن مِّنا لا یحبُّ حدیث رسول اﷲ؟ ومن منا لایحرص علی منہج سلف ہذہ الأمة رضي اﷲ عنہم۔


''جب میں اہل حدیث کا لفظ بولتا ہوں تو بالتاکید اس لفظ سے میری مراد عام ہے، میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اسی طرح ہوجائیں۔ کیونکہ ہم میں سے کون ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے محبت نہ ہو، اور کون ہے جو اس اُمت کے اسلاف کے منہج کا خواہاں نہ ہو۔''





امامِ کعبہ کے اس طرزِ فکر پر ان کے پورے خطاب کا اُسلوب شاہد ہے کہ اُنہوں نے اُمت مسلمہ میں اتحاد ووحدت اور یگانگت پر کئی بار زور دیا۔ وحدت کی بنیاد کتاب وسنت کو بتاتے ہوئے اُنہوں نے علما کے احترام، فرقہ واریت سے نفرت، اور فروعی مسائل کی بنا پر فرقہ بند ہوجانے کے رویہ کی مذمت کی اور آپس میں خیرخواہی اور ایک دوسرے کے لئے محبت ومؤدت کے جذبات پر کاربند رہنے کی تلقین فرمائی۔



امامِ کعبہ جیسی معتبر ومحترم ہستی کی یہی شان ہے کہ وہ اُمت کو اسلام کی حقیقی بنیادوں پر یکجا ہونے کی دعوت دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کا صحیح اور کامل شعور عطا فرما کر خلوص دل سے اس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!

No comments:

Post a Comment

Thanks for your comment.
Admin....